کراچی کا بحران اس وقت حکمرانوں اور بالادست طبقات کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مرکز اور سندھ کی نئی حکومت کراچی کے مسائل پر ماضی سے کیا مختلف اقدام کرتی ہے ۔ اگرچہ مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت تھی ،مگر سمجھوتوں کی سیاست نے کراچی کو سوائے تشدد اور خوف کے اور کچھ نہیں دیا۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔مرکزنے بھی سندھ اور بالخصوص کراچی کے معاملات پر خاموشی اختیار کرکے حالات کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں کراچی لسانی، مذہبی انتہاپسندی ، فرقہ ورانہ اور مافیائی سیاست کا شکار رہا ۔اب لوگوں کو امید ہے کہ نئی جمہوری حکومت ماضی کے مقابلے میں کراچی میںمعاملات کو حل کرنے میں فعال کردار ادا کرے گی ،لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اب بھی سندھ میں جو حکومت بنی ہے وہ ماضی کی حکومت سے مختلف نہیں ۔پیپلز پارٹی کے اہم رہنما قائم علی شاہ د وبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں اور اپنے سابقہ ساتھیوں ہی کی مدد سے وہ سندھ میں حکمرانی کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ اگرچہ ابھی ایم کیو ایم سندھ کی صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ، بلکہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا اعلان کرچکی ہے ، لیکن یہ فیصلہ زیادہ دیر تک برقرار رہتانظر نہیں آتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی جمہوری حکومت واقعی کراچی میں تبدیلی لا سکے گی؟ اگرچہ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے ، کیونکہ جہاں یہ مسئلہ ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضا کرتا ہے وہیں کراچی کی داخلی سیاست کی پیچیدگیاں بھی بہت بڑا مسئلہ ہیں۔کر اچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک بڑا المیہ ہے ، جبکہ دوسرا بڑا المیہ دہشت گردی کا ہے ۔ اس لیے یہ محض صوبائی مسئلہ نہیںبلکہ مرکزی حکومت پر بھی اس کے حل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح کراچی میں انتظامی بنیادوں پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی ، قانونی، انتظامی اور سماجی محاذ پر ایک موثر حکمت عملی کے ذریعے ہی کراچی کے مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔انتخابات کے بعد بھی تواتر کے ساتھ کراچی میں تشدد جاری ہے اور ہم اسے صوبائی حکومت کا مسئلہ سمجھ کر خاموش ہیں ۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں کراچی کے مسئلہ پر بات کرکے ذمہ داری اور حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے بقول ان کی حکومت کراچی کے مسئلہ کے حل میں ہر سطح پرسندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ کراچی کے مسئلہ کے حل میں ہر سطح پر تعاون کرے گی۔ لیکن وزیراعظم کو خود آگے بڑھ کر سندھ اور بالخصوص کراچی کے حوالے سے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد سارے معاملات کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن جب صوبائی معاملات براہ راست وفاق کو بھی متاثر کریں تو ذمہ داری مرکزی حکومت پر بھی آتی ہے ۔ اسی طرح ایم کیو ایم سندھ کی صوبائی حکومت کا حصہ بنے یا حزب اختلاف کا کردار ادا کرے دونوں صورتوں میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان بہتر تعلقات بہت ضروری ہونگے۔ بہتر تعلقات میں ایک مسئلہ تو آنے والے چند مہینوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات سے جڑا ہوا ہے ۔ پچھلے پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم متفقہ مقامی حکومتوں کے نظام پر متفق نہیں ہوسکے اور جہاں اتفاق رائے ہوا‘ وہ بھی اختلافات کی نذر ہوگیا۔اب دیکھنا ہوگا کہ سندھ کی مقامی حکومتوں کاجو نظام اسمبلی سے منظور کرواتی ہے اس پر ایم کیو ایم کا اتفاق رائے کس حد تک سامنے آتا ہے ۔پچھلی حکومت میں سندھ کے قوم پرستوں سمیت اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کے خواہشات پر مبنی مقامی نظام کی کافی مزاحمت کی ، جس پر پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کی حمایت سے دست بردار ہونا پڑا۔اب بھی اگر دونوں جماعتوںمیں مقامی نظام حکومت پر اتفاق نہ ہوا تو مسائل حل ہونے کی بجائے زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے۔کراچی میں جب بھی مقامی انتخابات ہوں گے‘ کافی مسائل پیدا ہونگے۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی سیاست کا بڑا انحصار کراچی اور حیدرآباد کی مقامی سیاست پرہے‘اس لیے ضروری ہے کہ مقامی انتخابات سے قبل کراچی کے حالات میں بہتری آئے اور سب جماعتوں کو وہاں آزادانہ بنیادوں پر کام کرنے کا موقع ملے۔کراچی میں اس وقت سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک تنائو کی سی کیفیت ہے۔ کراچی کے بحران کے حل میں ایک بڑی پیش رفت سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ایک بڑی پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا واقعی اس وقت مرکز اور صوبے میں موجود حکمران جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بنیاد بنا کر مسائل حل کرنا چاہتی ہیں؟ کیونکہ نوگوایریاز، سیاسی جماعتوں میں موجود مسلح ونگز، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خاتمہ کے لیے او رموثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کراچی میں موجود سیاسی فریق اعتراف کریں کہ ان کے اپنے اندر بھی بہت سے مسائل ہیں جن کا حل بھی مل کر تلاش کرنا ہوگا۔کراچی میں موجود پولیس او رانتظامیہ کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت یافتہ ہے ۔’’سیاسی پولیس‘‘ مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرکز اور سندھ کی صوبائی حکومت ایک غیر جانبدار پولیس او رانتظامیہ کے قیام میں ایک دوسرے کی معاونت کریں گی؟ کراچی میں ایک بڑا مسئلہ شہر کو اسلحہ سے پاک کرنا ہے۔ ایم کیو ایم نے سابقہ دور میں اسلحہ کے خاتمہ کے لیے ایک بل بھی پیش کیا تھا، مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی ۔شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور انتظامیہ میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ اسلحہ کے خاتمہ کے بغیر شہر کا امن ممکن نہیںہوگا؟۔بہر حال اگر میاںنواز شریف بطور وزیر اعظم صوبائی حکومت کی معاونت سے کراچی پر قومی کانفرنس کا انعقاد کرکے مشترکہ اور اتفاق رائے پر مبنی ایجنڈ ا بغیر سیاسی مصلحتوں کے سامنے لاکر عملدرآمد کو یقینی بنائیں توبہتری کی طرف ابتدائی پیش قدمی کی جاسکتی ہے ۔