جمہوری معاشروں میں مضبوط حکمرانی کے لیے مقامی نظام حکومت بنیاد کی حیثیت رکھتاہے ، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا جمہوری نظام (جو ابھی تک ارتقا ئی عمل سے گزررہا ہے)اس امر پر متفق نہیں ہوسکا کہ یہ مقامی بلدیات کا نظام کس طرح کا ہو۔ہماری سیاسی قیادتیں آمریت پر تنقید تو بہت کرتی ہیں ، لیکن وہ اپنی اپنی حکومت کے دور میں مقامی جمہوری حکومتوں کا نظام نہیں دے سکیں۔پاکستان میں 2008ء کے انتخابات کے بعد چاروں صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومت کے انتخابات کرانے سے گریز کیا، اور عوامی نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کو مضبوط کیا۔پنجاب اور سندھ میں جنرل پرویز مشرف کے 2001ء کے نظام سے ہٹ کر کوئی نیا نظام متعارف نہیں کرایا جاسکا ،جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نے جنرل ضیا الحق کے 1979ء کے نظام کو بنیاد بناکر اسمبلیوں سے نیا نظام منظور کروایا، لیکن وہ بھی انتخابات کے انعقاد میں ناکام رہے۔ پنجاب اور سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی نے ثابت کیا کہ ہمارا حکمران طبقہ ایک ایسا نظام چاہتا ہے جس میں انتظامیہ یا بیوروکریسی کو کلیدی حیثیت حاصل ہو۔حالانکہ 18ویں ترمیم میں جس انداز سے مرکز نے صوبوں کو اختیارات دیے ہیں اسی طرح اب صوبوں کو بھی ضلعوں اور نیچے اختیارات کی تقسیم پر سیاسی سمجھوتوں سے گریز کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ صوبائی خود مختاری کا مقصد محض مرکز سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی نہیں بلکہ اس کو اور نیچے لے جانا مقصود ہے۔اسی طرح صوبائی این ایف سی ایوارڈ میں ضلعوں میں وسائل کی تقسیم کا اصول واضح ہونا چاہیے تاکہ پس ماندہ اضلاع کی ترقی کا عمل بھی تیز ہوسکے۔ 2013ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم میں مقامی حکومتوں کے نظام پر بہت زور دیااوروعدہ کیا کہ اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات یقینی بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں کس طرز کا نظام متعارف کرواتی ہیں ۔کمزور اور بے اختیاربلدیات کا نظام لانا بے معنی عمل ہوگا۔ ہمیں چند بنیادی فکری مغالطوں سے باہر نکلنا ہوگا او رایک ایسے نظام پر متفق ہونا ہوگا جو مقامی سطح پر ہماری سیاسی، انتظامی اور مالی ضروریات کو پوار کرنے میں معاون ثابت ہو۔دنیا کے جمہوری معاشروں میں جہاں جہاں مضبوط مقامی نظام موجود ہے وہاں اب اس نظام کو تیسری سطح کی حکومت قراردیا جاتا ہے ۔ یعنی سب سے اوپر مرکز ، پھر صوبائی حکومتیں اور اس کے بعد مقامی حکومت کا درجہ آتا ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں مقامی حکومت کے مقابلے میں بیشتر سیاسی جماعتیں اور قیادتیں مقامی بلدیاتی اداروں کو اہمیت دیتی ہیں ۔ بلدیاتی اداروں میں مالی اور انتظامی اختیارات بہت کم ہوتے ہیں اور تمام تر اختیارات کا مرکز صوبائی حکومت سے جڑ اہوتا ہے ۔ جبکہ مقامی حکومت کا اصول ،صوبوں سے ضلعوں، تحصیلوں ، ٹائون اور یونین کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کی بات کرتا ہے۔ ارکان اسمبلی کو خوف رہتا ہے کہ نچلی سطح پر مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام آگیا تو وہ ترقیاتی فنڈز سے محروم ہوجائیں گے۔ہمار ا قانون یہ کہتا ہے کہ قومی، صوبائی اور سینٹ کے ارکان کی اصل ذمہ داری قانون سازی ہے۔اس کے برعکس ہمارے ہاں پارلیمنٹ کے ارکان کی ساری دلچسپی زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز کا حصول ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان نے ترقیاتی کاموں اور فنڈز کو فوقیت دینی ہے تو پھر مقامی نظام کیا کرے گا۔اس مخمصے کا ایک حل تو یہ ہے کہ اسمبلیوں کے ارکان کے ترقیاتی فنڈز ختم کردیئے جائیں اور یہی رقوم مقامی حکومتوں کے سپرد کردی جائیں ،ورنہ یہ ٹکرائو مقامی نظام کے چلنے میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہے گا۔پاکستان تحریک انصاف جس کے پاس خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت ہے وہ مقامی نظا م کو اپنے منشور میں بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ عمران خان کے بقول وہ کسی بھی صورت میں ارکان اسمبلی کو ایک روپیہ بھی ترقیاتی فنڈز نہیں دیں گے ۔ ان کے بقول یہ کام مقامی حکومتوں کا ہوگا۔ اگر عمران خان واقعی ایسی کوئی قانون سازی خیبر پختونخواہ میں کرسکے تو یہ مقامی نظام کی مضبوطی کے سلسلے میں ایک اچھی ابتدا ہوگی۔دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کی صوبائی حکومت کس طرز کا مقامی نظام لے کر سامنے آتی ہے او ریہ دیگر جماعتوں کے نظاموں سے کیسے مختلف ہوگا۔پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کا زیادہ میلان 1979ء کے نظام کی طرف ہے ۔ وہ ایک ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جس میں انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو اہم طاقت حاصل ہو۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیا ن اس نظام پر ٹکرائو کی کیفیت ہے اور دیکھنا ہوگا کہ کون کس پر بالادستی حاصل کرتا ہے۔ بلوچستان کی نئی حکومت جنرل ضیا کے مقامی حکومتوں کے نظام پر اکتفا کرتی ہے یا کوئی نیا نظام متعارف کرواتی ہے ، فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت پر بہت زیادہ زور دیتی ہیں ، لیکن مقامی یا بلدیات کے الیکشن میں وہ جماعتی انتخابات کے مقابلے میں غیر جماعتی کو ترجیح دیتی ہیں ۔ حالانکہ مشاہدہ یہ ہے کہ غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کرکے ،انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہی لڑے جاتے ہیں ۔تمام جماعتیں اپنی پسند کے امیدوار کھڑے کرتی ہیں اورجیتنے کے بعد زیادہ نشستوں کے حصول کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی سطح پر برادریوں کی سیاست کو مضبوط کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کو مضبوط کیا جائے۔ اگر یہ ادارے جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھیں گے تو اس سے نیچے سے لے کر اوپر تک جمہوری نظام کو اہم طاقت حاصل ہوگی۔جو بھی نظام سامنے آئے اس میں براہ راست انتخابات کو فوقیت دینی چاہیے اورمخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات اچھی نمائندگی میں رکاوٹ ہیں۔ ہماری صوبائی حکومتوں کو کسی بھی طرز کے مقامی نظام حکومت کو متعارف کرواتے وقت اچھی طرز حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو فوقیت دینی چاہیے ۔ ان بنیادی اصولوں میں احتساب، نگرانی موثر نظام، شفافیت، لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت، محروم طبقات کی نمائندگی،لوگوں تک سہولیات کی آسان رسائی، مقامی ضروریات کو فوقیت دینا، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مقامی لوگوں کو مقامی فیصلوں میں شامل کرنا ہے ۔سابقہ نظاموں میں یونین کونسل کے مقابلے میں ضلعی کونسلوں کو زیادہ فوقیت دی گئی جس سے یونین کونسل کا ادارہ جو سب اہم اور بنیادی یونٹ ہے بری طرح نظر انداز ہوا۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نیانظام متعارف کرواتے وقت صوبائی حکومتوں اور ضلعی حکومتوں کے اختیارات کو واضح کردے ۔ہمیں اس بحث میں بھی نہیں الجھنا چاہیے کہ 1979ء یا 2001ء میں سے کس نظام کو سامنے لایا جائے کیونکہ اس سے سیاسی محاذ آرائی بڑھے گی۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرکے ایک ایسے نظام پر متفق ہوناہوگا جو سب سے کے لیے قابل قبول ہو۔