"SAC" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی کا مخمصہ

پاکستان کی نئی حکومت کو دہشت گردی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے داخلی اور خارجی محاذوں پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو بھی حکمت عملیاں اختیار کیں، وہ کارگر ثابت نہیں ہوسکیں ۔ ایک امید تھی کہ نئی جمہوری حکومت دہشت گردی کے سامنے کوئی مضبوط بند باندھ سکے گی، لیکن اسے ابتدائی لمحات ہی میں ڈرون کی سلامی دے دی گئی، پھر زیارت میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کو نذر آتش کرنا،کوئٹہ میں طالبات پرحملہ، بولان میڈیکل کالج میں بربریت، مردان کے علاقہ شیر گڑھ میں نمازہ جنازہ اور نماز جمعہ کے موقع پر خود کش حملوںسمیت کراچی میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے بعد اب نانگا پربت کے مقام پر 9غیر ملکی سیاحوں سمیت 11افراد کو جس بے دردی سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، وہ داخلی سلامتی کے لیے شدید خطرات کی نشاند ہی کرتا ہے ۔ ان غیر ملکی سیاحوں کا تعلق چین، یوکرائن اور روس سے تھا اور اس واقعہ نے بین الاقوامی سطح پر ہمارا قومی مقدمہ مزید خراب کردیا ہے ۔کچھ عرصہ قبل فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ پاکستان کو اصل خطرہ اس کے داخلی بحران سے ہے اور اس پر مؤثر حکمت عملی اختیار کیے بغیر ہم قومی سلامتی کو محفوظ نہیں بناسکیں گے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ لیکن جہاں غلطیاں ہم سے ہوئی ہیں ، وہیں عالمی قوتوں نے بھی اس خطہ او ربالخصوص پاکستان میں مداخلت کرکے ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے اوراب پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن گیا ہے ۔ یہ دہشت گردی مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر بھی ہے اور اس کی جڑیں لسانی ، فرقہ ورانہ اور گروہی منافرت میں بھی پائی جاتی ہیں،لیکن بدقسمتی سے ہماری حکمت عملیوں کے تضادات اور سمجھوتوں کی سیاست نے بہتری پیدا کرنے کی بجائے معاملات کو زیادہ بگاڑدیا ہے۔ پچھلے دنوں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی اداروں پر جو تنقید کی وہ توجہ طلب ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کی تقریر کو تو حکومتی نقطہ نظر سمجھاجانا چاہیے جو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے بعض تحفظات رکھتی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہم دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بنے تو اس پر قومی اتفاق رائے کا فقدان تھا۔ بعض سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اسے امریکی اور عالمی دبائو کا حصہ سمجھتے ہیں۔یہ بحث آج بھی موجود ہے کہ کیا دہشت گردی کی یہ جنگ ہماری ہے یا ہم امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ جب قومی سطح پر اس طرح کے فکری مغالطے پیدا ہوں گے تو دہشت گردی سے نمٹنا آسان کام نہیں ہوگا۔ہمیں قومی سطح پر تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں او راس سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگاکیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا بعض اہل دانش پیش کرتے ہیں ۔یہاں غیر ملکی ایجنسیاں کافی سرگرم اور فعال ہیں اور ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں سکیورٹی اداروں ، ایجنسیوں اور حکومتوں پر بعض حلقوںمیں عدم اعتماد پایا جاتا ہے ۔لوگوں کو یہ بھی حیرت ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی میں دہشت گر د کیسے منظم ہوکر ریاست کے خلاف کامیاب ہوتے ہیں اور کون لوگ ان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عندیہ سامنے آیا تو یہاں بھی رائے منقسم ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے بھی چاہییں یا نہیں ۔امریکہ اب طالبان سے بات چیت کرنے جارہا ہے۔ اگر یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو پاکستان کے اندر بھی طالبان سے مفاہمت کی بات آگے بڑھے گی، لیکن امریکہ نے ابھی تک پاکستانی طالبان سے مفاہمت کی حمایت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں سیاسی وعسکری قیادت میں دہشت گردی کے خلاف ٹھوس پالیسی بنانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی کہاہے کہ بہت جلد نئی سکیورٹی پالیسی ترتیب دی جائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اب تک دہشت گردی سے نمٹنے کی جو بھی حکمت عملی اختیار کی، وہ کارگر نہیں ہوئی ۔ہم ماضی میں بھی نئی پالیسیاں ترتیب دیتے رہے ہیں مگر سیاسی وعسکری قیادت میں ہم آہنگی کا فقدان رہا۔ وزیر داخلہ نے جو انداز فکر اختیار کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اب بھی کہیں نہ کہیں بے اعتمادی کی فضا موجود ہے، تاہم نئی سکیورٹی پالیسی تشکیل دیتے وقت ہمیں بلوچستان اور کراچی کو صوبائی مسئلے یا محض امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ وفاق کو اپنی ذمہ داری سے مبّرا نہیں ہونا چاہیے۔سیاسی بھرتیوں کی بھرمار کے باعث پولیس سے اچھائی کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ہمیں پولیس اور دیگرسکیورٹی اداروں کی تشکیلِ نو کے حوالے سے بھی سوچنا چاہیے۔ اسلحہ کے لائسنس کے اجرا پر پابندی اچھی بات ہے، لیکن جو اسلحہ پہلے موجود ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ہم غیر ریاستی عناصر کو اسلحہ سے پاک کیے بغیر دہشت گردی کا سدباب نہیں کرسکیں گے،لیکن کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت قومی سلامتی کی ایک ایسی مؤثر پالیسی تشکیل دینے میں کامیاب ہوگی جو لوگوں کا اعتماد بھی حاصل کرسکے اور ہماری توقعات کے مطابق نتائج بھی دے سکے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں