"SAC" (space) message & send to 7575

پاک چین معاہدے اور داخلی بحران

وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ کریڈیٹ دینا چاہیے کہ ان کی ترجیحات میںبجلی بحران کا حل، معاشی ترقی اور خوشحالی کا ایجنڈا سرفہرست ہے ۔ اس کا اظہار ہمیں وزیر اعظم کے دورہ چین اور چینی حکومت اور سرمایہ کاروں سے کیے گئے کئی اہم معاہدوں کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اگرچہ یہ معاہدے طویل مدتی ہیں ، لیکن اگر ان پر ایک مضبوط سیاسی عزم کے ساتھ عمل درآمد کیا گیا تو اس سے بہتر نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ دورہ ایسے موقع پر کیا ہے جب ملک داخلی محاذ پر لاتعداد مسائل کا شکار ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسے داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ غیر ملکی حمایت اور سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ چین کو پاکستان کے بیرونی تعلقات میں کلیدی حیثیت اور بہترین ساکھ حاصل ہے۔ پاکستان میں امریکہ کے مقابلے میں چین کے ساتھ دوستی کو مضبوط رشتے کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ اس لیے وزیر اعظم کے دورہ چین میں جو معاہدے اور منصوبے سامنے آئے اس میں گرم جوشی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام پُرامید ہیں کہ پاک‘ چین نئے معاہدے ہماری بیمار معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کریں گے۔خود وزیر اعظم نے کہا کہ وہ پاکستان کو معاشی میدان میں ہانگ کانگ کی طرز پر آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اور ان نئے منصوبوں پر عملدرآمد سے ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ بظاہر ہمیں پاک‘ چین بیشتر معاہدے اقتصادی اور تجارتی نوعیت کے لگتے ہیں ، لیکن عملی طور پر ان کی ایک سٹریٹیجک سمت بھی ہے جس کے خطہ کی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کچھ نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اگر یہ خیال درست ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات مزید آگے بڑھنے پر امریکہ‘ افغانستان اور بھارت کا کیا ردعمل ہوگا۔ ماضی میں چین کو اعتراض تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جھکائو امریکہ کی جانب ہے۔ ہمیں کسی ایک ملک کی تابعداری کرنے کے بجائے ایک ایسی متوازن خارجہ پالیسی سامنے لانے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے اندراور تمام ملکوں کو بلا تامل قابل قبول ہو۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک کا داخلی بحران ہے ۔ بدقسمتی سے ان کی حکومت بننے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جس تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اندر او رباہر ایسی قوتیں ہیں جو ہمارے داخلی استحکام میں بڑی رکاوٹ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات قدرے کم رونما ہوتے رہے مگر لاہور کی پرانی انارکلی میں دہشت گردی کے واقعہ سے اس خونی لہر نے وسعت اختیار کر لی۔ خفیہ ایجنسیوں اور آئی جی پنجاب کے بقول دہشت گردوں کا نیا ہدف پنجاب ہوگا۔ چین میں بھی پاکستان کی داخلی سکیورٹی کی صورتحال پر کافی تشویش پائی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم جب چینی حکام اور سرمایہ کاروں سے ملے تو ان کا بھی اہم سوال سکیورٹی سے متعلق تھا۔ اگرچہ وزیر اعظم نے چینی حکومت کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت چینی باشندوں کی سکیورٹی کے معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، لیکن دہشت گردوں کی کارروائیوں کے پیش نظر یہ کام انتہائی مشکل صورت اختیار کر چکا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ بہت جلد نئی سکیورٹی پالیسی قومی اتفاق رائے سے ترتیب دے۔ ہمیں ایسی سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہے جو ایک طرف داخلی دہشت گردی کے سامنے بند باندھ سکے اور دوسری جانب ہمارے ہمسایہ ملکوں میں ہمارے بارے میں تحفظات کو کم کر سکے۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے‘ اب کوئی کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوتا‘ اس لیے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جہاں ہمیں اپنی خامیوں کا ادراک کرنا چاہیے وہاں علاقائی ممالک سے بھی تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس وقت علاقائی ممالک کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل یا میکانزم موجود نہیں۔ اگر ہے تو وہ فعال نہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ علاقائی ممالک میں دوسرے کے بارے میں بداعتمادی کی کیفیت ہے جو باہمی تعاون کے امکانات کو آگے بڑھانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو تجارتی اور معاشی منصوبوں کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایسی حکمت عملی طے کرانے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا جس سے ان میں تعاون کو فروغ ملے۔ جب ریاستیں اور حکومتیں دہشت گردی کا شکار ہوجائیں تو اس سے اجتماعی حکمت عملی اور تعاون سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم سے جب چین کے مقامی سرمایہ کاروں نے ملاقات کی تو ان کا ایک بڑا شکوہ ہماری بیوروکریسی کے بارے میں سامنے آیا۔ چینی سرمایہ کاروں نے کہا کہ پاکستانی بیوروکریسی ’’سرخ فیتے‘‘ کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تعاون فراہم کرنے کی بجائے رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کی یہ شکایت اپنے اندر وزن رکھتی ہے کیونکہ ہماری بیوروکریسی واقعتاً ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کا رویہ اور قوائد وضوابط ایسے ہیں جو مسائل میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے چینی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ وہ رکاوٹوں کو دورکرکے آسانیاں پیدا کریں گے۔ وزیر اعظم کو یہ کام صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ملکی سرمایہ کاروں کو بھی جو شکایات ہیں ان کو بھی دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کے سامنے اس وقت ایک بڑا چیلنج توانائی کا بحران ہے جس پر چین میں بھی کافی باتیں ہوئیں اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے۔ ملک میں تاجر اور صنعتکار کاروبار کی بندش کی وجہ سے نالاں ہیں اور عام لوگو ں کی زندگیاں بھی مشکل بن گئی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ اگلے چند مہینوں میں حکومت لوڈ شیڈنگ کے بحران سے کیسے نمٹتی ہے۔ حکومت کو لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جن سے فوری طور پر کچھ آسانیاں پیدا ہوں۔ چین کے دورے میں نئے منصوبوں کی جو تفصیل سامنے آئی ہے وہ طویل مدتی ہیں ، جبکہ ہمیں ایسے منصوبوں کی بھی ضرورت ہے جو فوری ریلیف دینے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس اعتبار سے نئی حکومت ایک بڑے امتحان سے گزر رہی ہے‘ اُسے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔وزیر اعظم جس سیاسی اور معاشی استحکام کی بات کررہے ہیں اس کا براہ راست تعلق داخلی مسائل کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صور ت میں ممکن ہوگا جب حکومت مضبوط سیاسی عزم کے ساتھ ان خرابیوں کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کرے جنہوں نے داخلی بحران پیدا کررکھا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں