پاکستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی کے بحران کے حل کے لیے سیاسی و عسکری اشرافیہ کا ایک طبقہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل پر زور دیتا ہے۔اگرچہ اس وقت قومی اسمبلی کی ڈیفنس کمیٹی موجود ہے ، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہے ۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میںچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کے علاوہ وزیر دفاع، وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ شامل ہوتے ہیں ۔پیپلز پارٹی نے نومبر2008ء میں ایک قدم آگے بڑھ کر نیشنل سکیورٹی کے امور پر پارلیمانی کمیٹی )پی سی این ایس(قائم کی تھی ۔ اس کمیٹی کے سربراہوں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضاربانی تھے۔ کمیٹی کے ارکان کی تعداد14تھی۔سیاسی قیادت کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ ڈیفنس اور پارلیمانی کمیٹی کی موجودگی میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل سے عسکری بالادستی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ، اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اب تک کی کارکردگی میں ڈی سی سی اور پی سی این ایس دونوں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرسکیں۔پلڈاٹ کی رپورٹ ’’ ڈیفنس کمیٹی آف کیبنٹ کی کارکردگی ‘‘مارچ2012ء میں لکھا گیا ہے کہ 2008-12ء ڈی سی سی کے محض 9اجلاس منعقد ہوسکے۔اس کے برعکس پارلیمانی کمیٹی کے 63اجلاس ہوئے۔دونوں کمیٹیاں سکیورٹی بحران کو کم کرنے اور اپنی دی گئی تجاویز پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہیں۔ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ یہ واقعہ ملٹری اور سول حکومت یا اداروں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر دفاع احمد مختار نے بھی ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ باقاعدگی سے ڈی سی سی کا اجلاس منعقد نہیں کرسکے ۔ 2مئی کے ایبٹ آباد کے واقعہ پر بھی ڈی سی سی کا اجلاس 12مئی کوطلب کیا گیا تھا لیکن کمیشن کے بقول ڈی سی سی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔کمیشن نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ ملک کو سنگین خطرات کے پیش نظر فوری طور پر نیشنل سکیورٹی کونسل اور قومی سکیورٹی پالیسی کی تشکیل کو ممکن بنائیں ۔ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ڈیفنس اور پارلیمانی کمیٹیاں ایسے خاطر خواہ فیصلے نہیں کرسکیں جو قومی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد گار ہوتے۔ 1969-71ء میںجنرل یحییٰ خان کے دور میں پہلی بار نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل نو کی گئی تھی ۔جنرل ضیاالحق بھی اس کونسل کے حامی تھے۔سابق صدر فاروق لغاری مرحوم نے 1997ء میں کونسل فار ڈیفنس اینڈ نیشنل سکیورٹی )سی ڈی این ایس(بنائی تھی۔ 1998ء میں فوج کے سربراہ جہانگیر کرامت نے بھی نیشنل سکیورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی تھی ۔اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی مخالفت کے باعث اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔جنرل جہانگیر کرامت اور نواز شریف کے درمیان جو اختلافات سامنے آئے ان کی ایک وجہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ادارے کی تشکیل بھی تھی۔جنرل پرویز مشرف کے دور میںاپریل2004ء میں ایک دفعہ پھر نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل نو کی گئی۔اس نیشنل سکیورٹی کونسل کی سربراہی صدر مملکت کو حاصل تھی۔وزیراعظم اس کونسل کے وائس چیئرمین تھے۔اس کونسل کے کچھ اجلاس بھی منعقد ہوئے ،تاہم سیاسی جماعتوں کے عدم اتفاق کی وجہ سے یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے عملی طور پر ختم کردیا تھا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(،دونوں نے میثاق جمہوریت میں عہد کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرکے ڈی سی سی کو مضبوط بنائیں گے۔ پاکستان میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل کا معاملہ بدقسمتی سے سیاسی رنگ اختیار کرگیا ہے ۔ نیشنل سکیورٹی کونسلیں دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی ہیں ۔ان ملکوں میں امریکہ، بھارت، ایران، برطانیہ، ترکی اور اسرائیل کے علاوہ کئی ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں نے اندرونی اور بیرونی خطرات اور سکیورٹی کے مسائل کو نیشنل سکیورٹی کونسل کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کی ، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں ابھی تک کوئی واضح قومی سکیورٹی پالیسی‘اینٹی ٹیررازم پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ وزیر اعظم نواز شریف، خارجہ امور کے ایڈوائزر سرتاج عزیز اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بقول موجودہ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر ہمیں اتفاق رائے پر مبنی نئی قومی سکیورٹی پالیسی کو تشکیل دینا ہے ،جس کے لیے وزیر اعظم بہت جلد تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی کانفرنس کا انعقاد کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اس قومی کانفرنس میں فوج او راس کی ایجنسیوں کے سربراہان بھی سیاسی قوتوں کے ساتھ زمینی حقائق اوران سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔وزیر اعظم نواز شریف فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے نئی سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں ۔ وزیر اعظم نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا ، جہاں ان کو سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی ۔فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہونے والی ملاقاتوںمیں نیشنل سکیورٹی کونسل کی افادیت اور تشکیل پر بھی غور کیا گیا۔اگرچہ اس پر ابھی تک مکمل اتفاق سامنے نہیں آیا تاہم اس کے امکان کو مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قومی سکیورٹی پالیسی کی کامیابی کا دارومدار سول ملٹری تعلقات میںہم آہنگی پر ہے ۔ موجودہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کی فضا قائم کریں۔محض الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا دور اب ختم ہونا چاہیے۔سیاسی اور عسکری قیادتوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے ہی قومی سکیورٹی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔اس لیے ہمیں اگر بحران سے نمٹنے کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل کرنا پڑے تو اس پر بحث مباحثہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا ڈھانچہ ڈی سی سی سے کافی مختلف اور دائرہ کار بھی وسیع ہے۔پاکستا ن میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے کی کمی یا بداعتمادی کی جو فضا ہے وہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی موجودگی میں بہتر ہوسکتی ہے ۔نیشنل سکیورٹی کونسل کا مقصد سیاسی اداروں پر بالادستی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایڈوائزری یا مشاورتی باڈی ہے جس کا مقصد سیاسی و جمہوری حکومتوں کو فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرنے کا ہے ۔البتہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں فیصلے کا اختیار عملی طور پر سیاسی حکومتوں ہی کو ہونا چاہیے، کیونکہ و ہی قوم کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اور اہم فیصلوں کا مینڈیٹ بھی انہی کو حاصل ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں فوجی مداخلتوں کی ایک تاریخ ہے ۔ اس لیے بعض اوقات جب نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل کی بات کی جاتی ہے تو اس سے سیاسی حکومتوں کو فوجی برتری کا احساس ہوتا ہے ۔ اب فوج میں بھی یہ احساس سامنے آیا ہے کہ فوجی مداخلت ہمارے مسائل کا حل نہیں اور جمہوری اداروں ہی کو مضبوط کرکے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ایک ایسے موقع پر جب ہم چاروں اطراف سے دہشت گردی کا شکار ہیں ہمیں سکیورٹی کو موثر اور بہتر بنانے کے لیے کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے ۔