سیاسی، انتظامی اور قانونی ادار وں کے درمیان ٹکرائو کسی کے مفاد میں نہیں‘ جب ادارے حدودو قیود کے دائرہ کار سے باہر نکلتے ہیں تو ان میں ٹکرائو پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ادارے ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لے جانے کی بھی کوشش کرتے ہیں‘ اس طرح مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو26جولائی کی تقریر پر سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس نے انھیں امتحان سے دوچار کردیا ہے۔ عدلیہ کا موقف ہے کہ عمران خان نے اُس کی تضحیک کی۔ بالخصوص عدلیہ کے بارے میں کہے گئے ان کے لفظ ’’شرمناک‘‘ کو گالی سے تعبیر کیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاستدانوں سمیت ہر ادارے اور فرد کو عدلیہ کے بارے میں لب کشائی کرتے وقت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یعنی ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے تضحیک یا توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ ماضی میں عدلیہ کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے خاص احتیاط کی جاتی تھی مگر اب وہ احتیاط کم نظر آتی ہے۔ عمران خان کی رائے میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ صاف و شفاف انتخابات کرانے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں ادارے شعوری طور پر غیر جانبدار نہیں تھے۔ عمران خان نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی اور بایئومیٹرک سسٹم کے تحت ووٹروں کی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع بھی کیا ہوا ہے ، لیکن ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہوئی ۔تحریک انصاف عید کے بعد انتخابات میں دھاندلیوں پر ایک وائٹ پیپر بھی جاری کرنے والی ہے۔ عمران خان جب عید کے بعد انتخابی دھاندلیوں پر مبنی وائٹ پیپر جاری کریں گے تو دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے کن حقائق اور ثبوتوں کی بنا پر انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر محض عمران خان ہی معترض نہیں، بلکہ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ)ن(بھی کہتی ہے کہ سندھ کے انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی۔ خود الیکشن کمیشن نے بھی اعتراف کیا تھا کہ کراچی کی حد تک انتخابات کی شفافیت مشکوک ہے ۔ عمران خان نے 2 اگست کی پیشی پر وضاحت کی کہ ان کی عدلیہ سے مراد ریٹرننگ آفیسرز تھے جو انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ عدلیہ نے ان کا موقف تسلیم نہیں کیا اور انہیں 28اگست تک اپنا تفصیلی بیان جمع کرانے کی ہدایت کی۔ یعنی عدلیہ نے عمران خان کو موقع دیا ہے کہ وہ تدبر اور تحمل کے ساتھ سوچ کر اپنا جواب داخل کریں۔ کمرہ عدالت کے باہر عمران خان بضد تھے کہ وہ اپنے الفاظ اور بالخصوص لفظ ’’شرمناک ‘‘ کو واپس نہیں لیں گے اور نہ ہی وہ اس لفظ کو گالی سمجھتے ہیں ۔اگر واقعی عمران خان اس موقف پر قائم رہتے ہیں تو ان کے اور عدلیہ کے درمیا ن محاذ آرائی کا عمل آگے بڑھے گا۔ گزشتہ برس سے عدلیہ پر تنقید کا رجحان بڑھا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ان کی دیگر اتحادی جماعتوں نے کئی بار عدلیہ کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ پیپلز پارٹی کے سینٹر فیصل رضا عابدی تو بہت آگے تک چلے گئے۔ صدارتی انتخا ب کی تاریخ بارے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حزب اختلاف کی بعض جماعتوں نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ ہی کردیا جو ایک طرح سے عدالت عظمیٰ پر عدم اعتماد ہے۔ عمران خان بھی بائیکاٹ کے حامی تھے، لیکن انہوں نے بعض تحفظات کے ساتھ صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن سمیت بعض قانونی ماہرین نے بھی کھل کر عدالتی فیصلہ پر تنقید کی ،لیکن توہین عدالت عمران خان پر لگی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ عمران خان سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ پاپولر سیاست دان ہیں۔ اس لیے خدشہ تھا کہ عمران خان کی عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر سخت تنقید پاپولر سیاست کا بھی حصہ بن سکتی ہے۔الیکشن کمیشن پر شدید تنقید بالآخر چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا باعث بنی۔ عمران خان بھی ان لوگوںمیں شامل ہیں جو الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی یہ آبزرویشن درست ہے کہ اگر عدلیہ پر اس انداز کی تنقید ہوگی تو اس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ عدلیہ نے لفظ ’’شرمناک‘‘ کو گالی گردانا ہے؛ چنانچہ اب اس لفظ کے معانی کے تعین کے لیے علماء اور ادیبوں سے بھی رجوع کیا جائے گا۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ جو جتنا بڑا ہے‘ اُسے الفاظ کے انتخاب میں اتنی ہی احتیاط برتنی چاہیے۔ اگر خان صاحب کے اس لفظ کا مقصد انتخابی دھاندلیوں کے پس منظر میں ریٹرننگ آفیسرز کے کردار کو واضح کرنا تھا تو انھیں‘ اسے عدلیہ کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔یہاں معاملہ کسی کا دوسرے پر بالادستی کا نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری رائے میں عمران خان کو وہاں نہیں جانا چاہیے جہاں عدلیہ کے بارے میں پیپلزپارٹی کھڑی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عمل دونوں جماعتوںکو ایک ہی موقف پر لاکر کھڑا کردے گا، جوعدلیہ کے حوالے سے نئی سیاسی سمت کو بھی متعین کرے گا۔ ہم اس وقت کسی طرح کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس سے گریز سیاستدانوں اور اداروں کے مفاد میں ہے۔