"SAC" (space) message & send to 7575

پاک بھارت تعلقات

وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے بہتر تعلقات کو ہمیشہ سے اپنی اہم ترجیح قرار دیتے رہے ہیں ۔ان کے بقول وہ اور ان کی حکومت بھارت سے فوجی اور سیاسی ہر سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔حکومت کو امید ہے کہ اگلے ماہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی ملاقات دونوں ملکوں کے بہتر تعلقات کے نئے امکانات پیدا کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے قیام کے فوری بعد بھارت کے حکومتی اور سیاسی حلقوں میں بھی بہتر تعلقات کے حوالے سے کافی گرم جوشی نظر آتی ہے ۔اگرچہ بہتر تعلقات کے حوالے سے بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس کا رویہ مثبت نہیں رہا۔ نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں جو ’اعلان لاہور ‘ہوا ،اس وقت بھارت میں بی جے پی اور واجپائی کی حکومت تھی۔بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت بھارت میں کانگریس کی حکومت ہوتی تو شاید’اعلان لاہور ‘ممکن نہ ہوتا۔لیکن اب کانگریس کے رویے میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات چاہتی ہے۔بھارت اور کانگریس دونوں میں وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں بڑی امیدیں پائی جاتی ہیں ۔تاہم پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کوئی آسان ایجنڈا نہیں۔ دونوں ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو ایک دوسرے کے بارے میں کافی جارحانہ رویہ رکھتے ہیں اورمذاکرات کی بجائے براہ راست جنگ کی بات کرتے ہیں ۔ بھارت میں اس وقت انتخابی ماحول ہے اور عام انتخابات کے پیش نظر کانگریس سمیت وہاں کی بیشتر جماعتیں پاکستان کے بارے میں جارحانہ حکمت عملی اختیار کرکے ووٹروں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ بھارت کی حکومتوں نے اس تاثر کو عام کیا ہے کہ پاکستان ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے دہشت گردی کو تقویت دیتا ہے ۔وزیر اعظم نے لائن آف کنٹرول میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر ایک اہم اجلاس میں واضح طو ر پر کہا کہ ’’ پاکستان طویل عرصے سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہے ۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جس کا اعتراف ساری دنیا میں کیا جاتا ہے۔اگر کوئی پاکستان پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتا ہے تو یہ بات ناقابل فہم بھی ہے اور ناقابل قبول بھی ‘‘۔اب بھارت کی حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی نظر آتی ہے اور مذاکراتکی بحالی دونوں ملکوں کی اشد ضرورت بھی ہے،مگر خدشہ ہے کہ کہیں یہ مثبت تبدیلی انتخابی سیاست کا شکار نہ ہوجائے۔بھارت میں عام انتخابات مئی 2014ء کو ہونے ہیں ، لیکن امسال نومبر میں بھارت کی چار اہم ریاستوں میں انتخابات ہوں گے اور اس باعث بھارت کی سیاست میں گرما گرمی ہے ۔کانگریس کے مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ کانگریس حکومت پاکستان کے بارے میں جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے سے گریز کررہی ہے،اسی لیے پاکستان اور وہاں کی دہشت گرد تنظیمیں ہماری داخلی سلامتی کو چیلنج کررہی ہیں۔ان حالات میں پاکستان کو بھی بھارت کے اندرونی زمینی حقائق کوسمجھ کر اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ ان انتخابات کے نتائج کے بعد ہی اندازہ لگایا جاسکے گا کہ مستقبل میں مذاکراتی عمل کا ایجنڈا کس سمت میں آگے بڑھے گا ۔اگر کانگریس نومبر میں ہونے والی چار ریاستوں کے انتخابات میں ہار جاتی ہے تو یہ ایجنڈا کمزور ہوگا اور کانگریس بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرسکتی ہے ۔ لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کے بعد جس انداز میں نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن کے باہر احتجاج اور حملہ ہوا وہ مذاکرات کے خلاف ایک سازش ہے، کیونکہ ماضی میں جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل معطل یا ختم ہوئے ،اس میں لائن آف کنٹرول کی کشیدگی نے اہم کردار ادا کیا۔بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے بھارت میں شدید احتجاج کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے کنٹرول لائن پر پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ڈال دی۔ اس سے قبل اے کے انتھونی کو پاکستان کے حق میں بیان دینے او راس واقعہ میں پاک فوج کو بری الزمہ قرار دینے پر بھارتی پارلیمنٹ میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی اور وزیر دفاع سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ ہمیں پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے طاقت ور فوجی جواب دینے کی ضرورت ہے ۔اب بھارتی فوج نے سیالکوٹ، نکیال اور بٹل سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کی، جبکہ دہلی ، امرتسرمیں بس دوستی سروس کو بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔یہ واقعات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر پاکستان کے بعض حلقوں نے کافی مزاحمت کی ،مگر مذاکراتی عمل کے تعطل نے اس معاملے کو التوا میں ڈال دیا تھا ۔بدقسمتی سے جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا سامنے آتا ہے ،کچھ واقعات کشیدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ممالک مسائل کے باوجود مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کرتے ،کیونکہ مذاکرات میں تعطل ان قوتوں کو تقویت دیتا ہے جو مذاکرات کی مخالف ہیں۔ بالخصوص دونوں ملکوں کو حکومتی سطح پر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے مسائل اور رکاوٹوں کو سمجھ کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھائیں ۔ دونوں ملکوں میں کوئی ایسا جادوئی چراغ نہیں جو فوری طور پر حالات کو سدھار دے ۔چنانچہ سیاسی کمٹمنٹ اور مذاکرات کا تسلسل ہی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کو جو اہم مسائل درپیش ہیں ان میں پانی، سرکریک، کشمیر، لائن آف کنٹرول پر کشیدگی، دہشت گردی، دونوں ملکوں کے درمیان آسان آمدورفت، ویزا شرائط میں نرمی اورتجارت وغیرہ شامل ہیں ۔کشمیر ی قیادت بالخصوص سید علی گیلانی نے حالیہ مذاکراتی عمل کی بحالی پر اپنے شدید تحفظات پیش کیے ہیں،اس لیے ضروری ہوگا کہ وزیر اعظم نواز شریف خود آزاد اور مقبوضہ کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر اس تاثر کو دور کریں کہ پاکستان کی حکومت مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ د ن قبل دونوں ملکوں کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کی بھی تائید کی تھی ،لیکن ماضی میں اس سے بہتر نتائج سامنے نہیں آسکے ۔جب تک دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اور عسکری معاملات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوتی ،ڈیڈ لاک کا عمل وقفہ وقفہ سے جاری رہے گا۔ بیک ڈور ڈپلومیسی میں جو کچھ طے ہوتا ہے اس سے ہماری سیاسی قیادت یا تو لاعلم ہوتی ہے یا وہ اس ایجنڈے کے برعکس اپنی علیحدہ ترجیحات رکھتی ہے ، چنانچہ مسائل بدستور موجود رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم کی یہ بات ٹھیک ہے کہ تعلقات کی بہتری کے لیے سیاسی اور عسکری دونوں محاذوں پر مذاکرات کی ضرورت ہے ۔بھارت کیونکہ اس خطے کا بڑا ملک ہے اس لیے تعلقات کی بہتری میں اس کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے جو علاقائی ممالک میں ’’دہشت گردی مخالف ادارہ جاتی میکنزم‘‘بنانے کی ضرورت ہے ،وہ بھی بھارت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے بھارت کے ساتھ اپنی ترجیحات کے تعین کے لیے قومی اتفاق رائے بھی پیدا کریں اوریہاں کی جذباتی کیفیت کو مدنظر رکھیں ،ورنہ خدشات بدستور قائم رہیں گے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں