"SAC" (space) message & send to 7575

ذمہ دار میڈیا کی بحث

اسلام آباد واقعہ کے بعد میڈیا کے کردار پر نئی بحث کا آغاز ہوا ہے ۔حمایت اور مخالفت میں دلائل دینے والوں کی کمی نہیں ۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسلام آبادریڈ زون پر ہونے والے واقعہ کی لائیو کوریج پر چیئرمین پیمرا کی سرزنش کی کہ آپ نے سکیورٹی پر کمپرومائزکیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس لائیو نشریات روکنے کا اختیار نہیں تو ہمیں لکھ کر دیں ،پھر ہم دیکھیں گے۔وزیر داخلہ چودھر ی نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد واقعہ کا پہلا ذمہ دار میں اور بعد کی ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے ۔ان کے بقول انھوں نے پیمرا سے بات کی اور کہا کہ ٹی وی چینلز سے کہیں کہ ہمیں15منٹ کا وقت دیں اور لائیو کوریج روک دیں ، لیکن ہماری بات نہیں مانی گئی اور یہ کہ میڈیا کی لائیو کوریج میں بچوں کے سامنے ان کے والد کو گولی مارناممکن نہیں تھا۔ دنیا بھر میں جنگی اور سکیورٹی کے سنگین حالات کو مدنظر رکھ کر حکومت اور میڈیا مل کر کچھ ایسے قواعد وضوابط تیار کرتے ہیں جو ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔پاکستان اس وقت عملی طور پر دہشت گردی کا شکار ہے اور اسے بیک وقت اندرونی اور بیرونی محاذ پر خطرات لاحق ہیں،ان حالات میں میڈیا کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں۔ ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہیں۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ واقعات کو عوام تک پہنچائے۔ ہمیں یہاں میڈیا کے کردار کو سراہنا بھی ہو گا کیونکہ صحافی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایسی کوریج کرتے ہیں۔ کئی صحافی اندھی گولی کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ قدم قدم پر خطرات ان کا تعاقب کر رہے ہوتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں صحافیوں کو خصوصی سازو سامان اور تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایسے خطرناک مقامات پر رپورٹنگ کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ پاکستان میں خودکش دھماکوں کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ صحافی ایسے مقامات پر پہنچتے ہیں تو خطرہ مول کر کوریج کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحافیوں کی انشورنس کے لیے کوئی پالیسی سامنے لائے۔ جو صحافی سروس کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کے اہل خانہ کے لیے معقول مالی امداد اور بچوں کی مفت تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہونا چاہیے۔ یہ وہ کام ہیں جو حکومت سر انجام دے سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف میڈیا کو فائدہ ہوگا بلکہ بہتر رپورٹنگ بھی میسر ہو گی۔ صحافی خطرات میں بھی رپورٹنگ کر سکیں گے اور انہیں یہ اطمینان ہو گا کہ ریاست ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک زمانے میں پاکستان کے میڈیا میں ایڈیٹر انسٹی ٹیوشن بہت بااختیار اور مضبوط ہوا کرتا تھا، لیکن اس عہدے کی اہمیت کم ہونے کے باعث میڈیا کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نے بھی ’’ معلومات یا سچ‘‘ ذمہ داری کے ساتھ پیش کرنے کے عمل کو کمزور کردیا ہے ۔ بھارت کی معروف دانشور اور انسانی حقوق کی رہنما ارون دھتی رائے کے بقول ’’بحرانوں پرچلنے والا میڈیا بحران کے بغیر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ جس طرح کاروبار کے لیے کیش ٹرن اوور کی ضرورت ہوتی ہے ، میڈیا کے لیے بھی کرائسس ٹرن اوور ضروری ہوتا ہے اور وہ بحران تشکیل دینے میں مشغول رہتا ہے۔ ایسے بحرانوں کی تشکیل کے طریقے تلاش کرتا ہے جو قابل قبول ہوں اور ناظرین کے لیے تماشے کا لطف مہیا کرسکیں ۔ ہمیں خود کو کرائسس رپورٹنگ کے جبر سے آزاد کرانا ہوگا۔‘‘ بعض اوقات یہ بحران حقیقی معنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات انھیں مصنوعی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ میڈیا میں بعض لوگوں کا یہ موقف بجا ہے کہ ان کا کام لوگوں کو معلومات دینا ہے ۔بلاشبہ جو کچھ ہورہا ہے اسے دکھانا میڈیا کی ذمہ داری ہے،لیکن معلومات اور اس کے بعد اس پر تبصر ے اور تجزیے کے معاملے پر ہمیں یقینا احتیاط کرنی چاہیے۔حالات کا تقاضا ہے کہ آپ معلومات کو اس انداز میں پیش کریں جو لوگوں میں ملک اور ریاست کے بارے میں مسائل پیدا کرنے کی بجائے حالات کو معمول پر لائیں۔لال مسجد کے سانحہ پر بھی ہم نے میڈیا کے کردار کو دیکھا تھا۔ جب انتظامیہ آپریشن کرنے سے گریز کررہی تھی تو کہا جارہا تھا کہ یہ حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی ہے اور جب آپریشن کیا گیا تو انسانی جانوں کے ضیاع پر حکومت اور انتظامیہ کو خاصی تنقیدکا نشانہ بنایا گیا۔ بعض اوقات ہمارے میڈیا میں افراد یا گروہ کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔مگر اس طرح تو ہر شخص آزاد ہوگا کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ریاست، حکومت یا کسی فرد یا ادارہ کے خلاف بندوق اٹھا کر کھڑا ہوجائے ۔جب ٹی وی پر لائیو نشریات جاری ہوتی ہیں اس وقت پروگرام پیش کرنے والے اینکرز ، پروڈیوسرز ،تجزیہ نگاروں سمیت دیگر ذمہ داران کی نگرانی کا عمل مزید مضبوط ہونا چاہیے ،اس کے علاوہ تحقیق کا پہلو بھی کافی تشنہ اورتوجہ طلب ہے۔ میڈیا سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ ان کا کام لوگوں کو سچ دکھانا ہے ،تومعاشرے کی سوچ اور تعمیر کی ذمہ داری بھی تو ایک حد تک میڈیا ہی کو ادا کرنی ہے، کیونکہ اب یہ ایک بڑی سیاسی اور سماجی طاقت ہے ۔ اس طاقت کو اگر ہم معاشرے کی تعمیراور لوگوں کی تربیت پر لگائیں گے تو ایک مہذب معاشرہ تشکیل پائے گا ۔میڈیا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابھی سیکھنے کے عمل سے گزررہا ہے ۔ ہمارے نجی الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو پرنٹ میڈیا کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر اصحاب اب بڑے ٹی وی اینکرز شمار ہوتے ہیں یہ لوگ پالیسی میکنگ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کمرشل ازم کو برقرار رکھتے ہوئے میڈیا کے ماہرین ’’ ذمہ دار میڈیا‘‘ کی بحث کو بھی آگے بڑھارہے ہیں ۔ان ماہرین کے بقول ایک ذمہ دار میڈیا ایک ذمہ دار جمہوری معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ان ماہرین کے بقول کوئی بھی چیز مادرپدر آزاد نہیں ہوسکتی اور میڈیا سمیت ہر ادارے کو چلانے کے لیے کچھ بنیادی قواعد وضوابط یا اصول طے کرنے ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی میڈیا کے حوالے سے قوانین موجود ہیں ۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا)اور پاکستان پریس کونسل کے قوانین ان اداروں پر لاگو ہوتے ہیں ۔ اسی طرح صحافیوں اور الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کا بھی اپنا کوڈ آف کنڈکٹ ہے ، لیکن ان تمام قوانین پر عملدرآمد کرنے میں حکومت اور صحافتی تنظیموں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔بہرحال میڈیا کو اپنی بعض خامیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہوگی،جبکہ دوسری طرف یہ تاثر بھی قائم نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اپنے مخصوص مفادات اور سیاسی مسائل کی وجہ سے میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے ۔اس سلسلے میں اے پی این ایس، سی پی این ای اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت دیگر تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھائیں ۔ پاکستان میں موجود میڈیا سے وابستہ تعلیمی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ذمہ دار میڈیا کی اس بحث کا حصہ بنیں اور اپنے نصا ب میں ایسا مواداور تربیت کا نظام شامل کریں جو صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو،کیونکہ ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریت ناخواندہ ہو،غیر جانبدارانہ اور مقصدیت کی حامل رپورٹنگ اور تجزیاتی مباحث ہی افواہ سازی ، سنسنی خیزی ،غیر مقصدیت اور مفروضوں کو حقائق کے طورپر پیش کرنے کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں