"SAC" (space) message & send to 7575

ضمنی انتخابات کے نتائج

ضمنی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو بعض جماعتوں کو سیاسی محاذ پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ این اے 1پشاور، این اے 71میانوالی میں عمران خان کی حاصل کردہ نشستوں پر ناکامی تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی یا پارٹی کے داخلی انتشار کو نمایاں کرتی ہے ۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں صوبائی نشستوں پی کے 27, 23, 42,اور70پر بھی تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،تاہم پنجاب اسمبلی کی راجن پور اور ڈی جی خان کی خالی کردہ نشستوں پر حیران کن کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح این اے 27لکی مروت کے نتائج اگرچہ روک لیے گئے ہیں ، لیکن اب تک کے نتائج میں وہاںمولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطا الرحمن تحریک انصاف کے امیدوار سے بہت پیچھے ہیں ۔این اے 1پشاور میں حاجی غلام احمد بلور نے جو انتخاب جیتا ، اس کا اندازہ پہلے ہی ہوگیا تھا، کیونکہ یہاں تحریک انصاف کا امیدوار گل باشاہ بہت کمزور تھا، جبکہ پارٹی کے ایک رہنما صمد مرسلین ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ انھوں نے کئی ہزار ووٹ لے کر پارٹی کی شکست میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ یہ نشست اے این پی نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ)ن(اور جے یو آئی کی حمایت سے جیتی ہے ۔ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کے داخلی اختلافات بھی یہاں شکست کا سبب بنے ۔پارٹی کے صوبائی صدر ا ور سیکرٹری بالترتیب وزیر اعلیٰ اورسپیکر کے عہدے پر فائزہیں اور دونوں میں اختلافات بھی موجود ہیں ۔ان حالات میں حاجی غلام احمد بلور کی جیت یقینی تھی۔ پشاور کے برعکس میانوالی میں عمران خان کی شکست کافی حیران کن ہے ۔ یہاں پر ان کی جماعت پندرہ ہزار ووٹوں سے ہاری ہے ۔ یہاں پر بھی پارٹی کے اندر کافی مسائل تھے ۔ عائلہ ملک کو ٹکٹ جاری کرنے او ران کی نااہلی کے بعد ان کے بہنوئی کو ٹکٹ ملنے پر کافی مسائل پیدا ہوگئے تھے ۔ مقامی سطح پر لوگوں کو یہ گلہ بھی تھا کہ عمران خان نے یہاں کی نشست کیوں چھوڑی ہے۔ عمران خان کے کزن نیازی برادران بھی ان سے فاصلے پر کھڑے تھے۔کہا جاسکتا ہے کہ میانوالی اور پشاور میں تحریک انصاف کی شکست میں دیگر عوامل کے علاوہ تنظیمی مسائل بھی نمایاں تھے،جن کا عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے ۔بعض رہنما پارٹی میں ان سے بالا ہوکر سیاست کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں اورعمران خان جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس میں صوبائی حکومت رکاوٹ ہے ۔بعض اوقات یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی معاملات پر ان کی گرفت کمزور ہورہی ہے ۔ مسلم لیگ)ن(نے ان ضمنی انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل کی ،لیکن راجن پور میں شہباز شریف، ڈی جی خان میں سردار ذوالفقار کھوسہ کی خالی کردہ نشستوں پر ان کی ناکامی صدمے سے کم نہیں ، حالانکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کچھ عرصے میں 40کے قریب دورے صرف راجن پور کے کیے ، لیکن وہاں کے لوگوں نے ان کے نامزد کرد ہ امیدوار کو قبول نہ کرکے پیغام دیا ہے کہ مقامی لوگوں کی خواہشات کے برعکس جو بھی فیصلے ہوں گے ،انھیں من و عن قبول نہیں کیا جائے گا۔ اوکاڑہ میں منظور وٹو کے بیٹے کی کامیابی مسلم لیگ)ن(کے لیے خلاف توقع تھی۔این اے177میں جمشید دستی کے بھائی بھی مسلم لیگ)ن(کی حمایت کے باوجود ہار گئے ۔لاہور میں پی پی 150پر مسلم لیگ )ن(کے امیدوار میاں مرغوب چند سو ووٹوں سے ہارے ہیں ، اور یہ امر مسلم لیگ)ن(کے لیے خطرہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔پیپلز پارٹی کے لیے پنجا ب میں نور ربانی کھر، خرم وٹو اور سابق گورنر پنجاب کے بھائی اور سندھ میں این اے 235پر شازیہ مری اور این اے 237میں مہرالنسا کی پیر پگاڑا کے امیدوار اور شیرازی برادران کے مقابلے میں کامیابی اہم ہے ۔ان ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو جو معمولی سے کامیابی ملی ہے ، وہ اس کی مستقبل کی سیاست میں اہم ثابت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح اے این پی کو غلام احمد بلور کی کامیابی کی صورت میں کچھ رعایت ملی ہے ، جس کا وہ صوبائی سطح پر فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ ان ضمنی انتخابات میں زیادہ نقصان مولانا فضل الرحمن کو ہوا ہے ۔ عمران خان کے خلاف جس انداز سے وہ انتخابی مہم چلارہے تھے ، ووٹروں نے انھیں پزیرائی نہیں بخشی ۔ٹانک کا انتخاب ملتوی ہوگیا، وہاں بھی جب انتخاب ہوگا تو کنڈی خاندان کی حمایت کے ساتھ تحریک انصاف کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوگا۔پیپلز پارٹی کے بارے میں ایک رائے یہ دی جارہی ہے کہ اس نے ان ضمنی انتخاب میں ’کم بیک ‘کیا ہے، یہ بات قبل ازوقت ہوگی ۔ پنجاب میں اسے جو کامیابی ملی وہ پارٹی کے مقابلے میں افراد کی مرہون منت زیادہ ہے ۔ ضمنی انتخابات میں عمومی طور پر ووٹر ٹرن آئوٹ عام انتخابات کے مقابلے میں کم ہی ہوتا ہے ۔ ان ضمنی انتخابات میں مجموعی طو رپر ووٹنگ کا تناسب 39.61فیصد رہا ہے ۔ پنجاب میں 36.75، سندھ میں 32.94، خیبر پختونخوا میں 36.94جبکہ حیران کن طور پر بلوچستان میں ٹرن آوٹ 49.42فیصد رہا۔مجموعی طور پر یہ ضمنی انتخابات پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ تر افراد کی بنیاد پر لڑے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر جب عمران خان میانوالی اور پشاور میں ، شہباز شریف راجن پور میں امیدوار تھے تو ووٹروں نے ان کو پزیرائی دی ، لیکن ان کے نامزد کردہ لوگوں کو مسترد کردیا گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کے نظریاتی معاملات کی بجائے ووٹر میں فرد کی بھی اہمیت ہوتی ہے ۔ان ضمنی انتخابات سے سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو یہ سبق ضرور ملا ہے کہ انھیں ٹکٹیں جاری کرتے ہوئے میرٹ اور مقامی ترجیحات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا کہ جس کو بھی ٹکٹ دی گئی،وہ جیت جائے گا، اب ذرا مشکل نظر آتا ہے ۔ اگر چاروں صوبوں میں حکمران جماعتوں کے خلاف مقامی انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کی توحکومتی جماعتوں کوغیر جماعتی انتخابات کے باوجود سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان ضمنی انتخابات میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بڑی قومی جماعتوں کا وجود سکڑ رہا ہے ۔سندھ اور خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ)ن(، تحریک انصاف کا سندھ اور بلوچستان جبکہ پیپلز پارٹی کا بلوچستان ، خیبر پختونخوا سمیت پنجاب کے بعض حصوں میں سیاسی وجود کافی کمزور پڑرہا ہے ۔ان جماعتوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں