وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کے بقول کراچی کا مسئلہ ایک صوبائی معاملہ ہے اور صوبائی حکومت ہی کو مسئلے کا حل بھی تلاش کرنا ہے ‘ لیکن اس کے لیے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو جہاں بھی ہماری ضرورت ہوئی‘ ہم ان کی ہرممکن مدد کے لیے تیار ہیں۔بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسئلہ کو حل کرنے میں پُرعزم اور سنجیدہ ہے ، لیکن وہ اس حسّاس معاملہ کو صوبائی فریم ورک سے دیکھنے کی کوشش کررہی ہے ۔ وفاقی حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کراچی ایک قومی مسئلہ ہے ۔ اس مسئلہ کے حل میں صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کا کرداراہم ہوناچاہیے۔ وفاقی حکومت ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ امن وامان کی صورتحال اور دہشت گردی دو مختلف چیزیں ہیں ۔ کراچی میں محض امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ، بلکہ وہ دہشت گردی کا شکارہے ۔دہشت گردی سے نمٹنا محض صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں نہیں ہوتا ، اس میں وفاقی حکومت کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ یہ شواہد بھی ہیں کہ کراچی کے معاملہ میں بیرونی مداخلت بھی موجود ہے ۔ ایسی صورت میں وفاق کی یہ دلیل کہ کراچی صوبائی مسئلہ ہے ،مناسب نہیں۔صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو بھی ذمہ دارانہ کردارادا کرنا ہوگا۔ اس معاملہ میں اگرصوبائی حکومت کوئی کوتاہی یا کرسی بچانے کی سیاست کرے گی تو وفاق محض آنکھ بند کرکے کیسے بری الزمہ ہوسکتا ہے! کراچی کا مسئلہ مفاہمت کی سیاست اور قانون کی عدم حکمرانی کی وجہ سے بگاڑ کا شکار ہوا ہے ۔ یہ کسی ایک حکومت کی ناکامی نہیں ، بلکہ سبھی حکومتیں اس ناکامی میں شریک ہیں ۔ عمومی طور پر حکمران طبقات نے کراچی میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی بجائے محض اقتدار کو بچانے کی سیاست کی۔ اس کا نتیجہ انتشار اور تشدد کی صورت میں سامنے آیا ۔ سائوتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل )ایس اے ٹی پی( کی رپورٹ کے مطابق2007-13ء کے درمیان اب تک کراچی میں 4488افرادتشدد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ان میں3888 سویلین،303سکیورٹی فورسز کے اہلکاراور297 دہشت گرد شامل ہیں ۔ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق جنوری تا جون 2013ء… 1726لوگ مختلف واقعات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جبکہ 2012ء میں 2284افراد نشانہ بنے ۔یہ اعداد و شمار حالات کی سنگینی کوظاہر کرتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے بارے میںلوگوں کو سابقہ وفاقی حکومت کے مقابلے میں موجودہ مرکزی حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں ۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول سندھ کی شہری اور دیہی سیاست میںدونوں فریقوں کے شامل ہونے سے ہی سندھ حکومت چلائی جاسکتی ہے۔اس طبقہ کے بقول سندھ کے شہری علاقوں کے مینڈیٹ کو الگ کرکے حکومت چلانا سندھ اور کراچی دونوںکے لیے مفید نہیں ہوگا۔یوںنظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم اس بار پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ )ن(کے زیادہ قریب ہے۔ لیکن اس وقت ایم کیو ایم اور مسلم لیگ )ن(کراچی کے مسئلہ کے حل میں الگ الگ حکمت عملیاں اپنائے ہوئے ہیں ۔ایم کیو ایم نے فوج بلانے کا مطالبہ کردیا ہے ۔ اس کے بقول یہ مطالبہ غیر آئینی نہیں بلکہ لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے‘ جبکہ مسلم لیگ )ن(ایم کیو ایم کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتی۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت پر دبائو ڈال رہی ہے کہ وہ کراچی کے مسئلے کے حل کے لیے غیر معمولی اقدامات کرے۔ یہ بات بجا ہے کہ ہمیں کراچی کے مسئلہ کا حل سیاسی بنیادوں پر ہی تلاش کرنا چاہیے۔ جہاں ہمیں انتظامی مدد کی ضرورت ہے وہاں حکومت انتظامی مشینری کی مدد کے ساتھ اقدامات کرسکتی ہے۔ کراچی میں پولیس اور انتظامیہ غیر جانبدار کم اور سیاسی مفادات کے ساتھ زیادہ وابستہ ہے ۔ یہ بات پہلے بھی سپریم کورٹ میں حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے قبول کی گئی تھی کہ کراچی میں پولیس اور انتظامیہ سیاسی لوگوں کی حمایت یافتہ ہے۔ جناب چیف جسٹس کے بقول کراچی میںپولیس اور رینجرز دونوں صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں ، حکومتی رٹ کمزور ہے اور قتل وغارت کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں ۔ کراچی پرامریکی ادارے یونایٹیڈاسٹیٹس آف پیس کی خصوصی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں نے باقاعدہ ونگز بنارکھے ہیں ۔ اسی رپورٹ میں بھتہ خوری، پولیس میں سیاسی بھرتیوںاور انتہا پسند گروپوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔وزیر داخلہ کے بقول بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میںملوث افراد کی سیاسی وابستگیاں موجود ہیں ۔ کراچی کے مسئلہ پر سابق مرکزی اور صوبائی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی۔ عدالت کے سامنے ڈی آئی جی سائوتھ امیر شیخ کا کہنا ہے کہ کراچی میں آپریشن کے حوالے سے پولیس اور انتظامیہ میں خوف پایا جاتا ہے ۔ ان کے بقول سابقہ آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسروں کو چُن چُن کر مارا گیاتھا۔ ہم سے اصولوں پر چلنے کی بات کی جاتی ہے ، مگر اصولوں پر چلنے کا انعام ہمیں تبادلے کی صورت میں ملتا ہے ۔ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اخترنے عدالت میں بتایا کہ کراچی میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں غیر ملکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے ، جو سابقہ حکومت کے دو ر میں کراچی میں تقسیم ہوا۔وزیر داخلہ کے بقول یہ رپورٹ غلط نہیں ، لیکن سیاسی جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے اسے سپریم کورٹ سے واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ کراچی کا معاملہ سطحی نہیں‘خاصا گھمبیر ہے۔ کراچی کے مسئلہ کے حل میں ہمیں چار بنیادی پہلوئوں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اوّل، کراچی میں اسلحہ کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے قانونی اور غیر قانونی دونوں طرز کا اسلحہ ختم کرنا ہوگا اور حکومتی اداروں کے سوا کسی کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔دوئم‘ کراچی میں وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ وفاق خود صوبائی سطح پر تمام جماعتوں پر مشتمل قومی کانفرنس کا انعقاد کرے جس میں وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سمیت سکیورٹی اداروں کے افسران موجود ہوں۔ ان سب کی موجودگی میں اتفاق رائے سے آپریشن کی طرف پیش قدمی کی جائے۔اس آپریشن کوسیاسی مصلحتوں سے پاک ہونا چاہیے اور حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کو اس دائرہ کار میں لاکر سخت فیصلوں سے گریز نہ کیا جائے۔ سوئم‘ کراچی میں پولیس اور انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دینا ہوگا۔چہارم‘ سیاسی جماعتوں میں موجود مسلح ونگز کا خاتمہ کرنا ہوگا، لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں خود ان کو ختم کریں اور جمہوری سیاست کو آگے بڑھائیں۔ علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کو شہر میں موجود مافیاز کے خلاف بھی منظم ہونا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں متحد ہوکر ہی ان مافیاز کو ختم کرنے میں حکومت اورانتظامیہ کی مدد کرسکتی ہیں ، لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ وہ ان مافیاز کی سرپرستی کرتی ہے ۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت تمام فریقوں کے مشورے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر اتفاق رائے سے مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کرے ۔اچھی بات یہ ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت بڑھ رہی ہے اور سب متفق ہیں کہ فوج کی بجائے اس آپریشن پر توجہ دی جائے ۔