"SAC" (space) message & send to 7575

سکیورٹی پالیسی کی تشکیل اور اے پی سی

وزیر اعظم نواز شریف قومی اتفاق رائے پر مبنی نئی سکیورٹی پالیسی کی تشکیل کے حامی ہیں ۔ وہ سابقہ پالیسی پر عدمِ اعتماد کرتے ہوئے اسے قومی مفادات کے برعکس سمجھتے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادت، عسکری عمائدین اور حکومتی نمائندوں پر مشتمل قومی کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا ہے ۔ اس طرز کی قومی کانفرنسز ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں ،مگر ان کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوتا تھا ،وہ کمزور حکومتی ترجیحات کے باعث خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا۔تاہم وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے منعقد کردہ کانفرنس سے لوگوں کو بہت سی امیدیں ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہوں گے ۔اس کانفرنس کی ٹائمنگ بھی کافی اہم ہے ، کیونکہ اس وقت دہشت گردی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے ۔وزیراعظم کے بقول اس مسئلہ کو حل کیے بغیر دیگر قومی مسائل کا ازالہ ممکن نہیں ۔پھر 2014ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا بھی اہم ہوگا ۔ اس سے قبل حکومت اپنی خواہش کے باوجود سیاسی و انتظامی وجوہات کی بنا پر اس کانفرنس کا بروقت انعقاد نہیں کرسکی تھی ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خا ن بھی اس میں شمولیت سے انکار کرچکے تھے۔ وہ کانفرنس کے انعقاد سے قبل وزیر اعظم اور آرمی چیف سے تنہائی میں ملاقات کرکے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے کچھ سوالوں کے واضح جوابات چاہتے تھے ۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ایک واضح مینڈیٹ ہے۔ وہ اس مینڈیٹ کی روشنی میں سکیور ٹی امور پر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قومی پالیسی کی تشکیلِ نو کرسکتے ہیں ۔ ان کے بقول سیاسی جماعتوں کی ایسی قومی کانفرنس سے مطلوبہ نتائج کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک ہی نقطہ پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے موجود ہو۔ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی، سکیورٹی اموراور امریکہ، بھارت، افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتی ہیں، جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہے ۔ اس کانفرنس کے حوالے سے کچھ باتیں کافی اہمیت کی حامل ہیں ۔ اول ،پاکستان میں موجود طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی سے مذاکرات اور طاقت میں سے کونسا راستہ اختیار کیا جائے ؟ دوئم ،اگر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو یہ کن قوتوں سے ہونگے اور ان قوتوں میں سے کون مذاکرات کے لیے تیار ہوگی۔ حکومت کے بقول وہ صرف ان قوتوں سے مذاکرات کرے گی جو ہتھیار پھینک کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہوں گی۔ ابھی تک تو پاکستان میں موجود طالبان یا دیگر قوتوں کی جانب سے ایسی پیشکش نہیں کی گئی کہ وہ ہتھیار پھینک دیں گے۔کیا اس مذاکراتی عمل میں ڈرون حملوں کا خاتمہ اور جنگ بندی کا سوال بھی سامنے آئے گا؟سوئم،مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا ؟ مذاکرات میں جو کچھ طے ہوگا اس کی ضمانت کون دے گا؟او راس کا ٹائم فریم کیا ہوگا؟کیا مذاکرات کو امریکہ اور دیگر قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی ؟کیا اسی طرح کراچی میں موجود سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز کا بلاتفریق خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا؟چہارم ،پاکستان کے امریکہ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی ؟پنجم، قومی سکیورٹی پالیسی پر جو کچھ طے ہوگا اس پرسیاسی و عسکری قوتوں کے درمیان کس حد تک ہم آہنگی اور اتفاق رائے ممکن ہوگا؟ وفاقی حکومت کے ایجنڈے پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے بہت مشکل ہے ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اس معاملے میں سخت گیر موقف رکھتی ہیں ۔ یہ جماعتیں آسانی سے حکومتی ایجنڈے سے متفق نہیں ہوں گی ،ایک طبقے کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، سید منور حسن اور عمران خان مذاکرات کے عمل میں ان قوتوں کے ساتھ مفاہمت میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ یہ سوچ بھی مکمل طور پر صحیح نہیں ۔ پاکستان میں موجود طالبان او ردیگر گروہ ،جن کی تعداد اب بہت زیادہ ہے ،ان لوگوں کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض گروہ بیرونی قوتوں سے بھی رابطے میں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور سید منور حسن کسی بھی طرح کے ضامن بننے کے لیے تیار نہیں ۔ مولانا سمیع الحق کہتے ہیں کہ وہ پہلے ایجنڈا دیکھیں گے کہ حکومت کے ارادے کیا ہیں اور پھر ضمانت کی بات کرسکیں گے۔مولانا فضل الرحمن نے آگے بڑھ کر حکومت سے تعاون کا اعلان کیا ہے ، مگر وہ بھی کسی اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔پھر کانفرنس میں شامل بعض سیاسی اور مذہبی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکومت امریکی فریم ورک کے مطابق کام کررہی ہے اور وہ اتنا ہی آگے جائے گی جتنی امریکہ اجازت دے گا۔عمران خان نے دہشت گردی سے نجات کے لیے چار نکات پیش کیے ہیں جن میں امریکہ کی جنگ سے باہر نکلنا، طالبان کے ساتھ مذاکرات، نیلسن منڈیلا طرز کی مفاہمت کا عمل اور دہشت گرد ،اگر مذاکرات سے انکار کریں تو پھر ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے ۔ مذاکرات کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ ڈرون حملے بھی بن سکتے ہیں ۔خدشہ یہ ہے کہ اگر قومی سکیورٹی پالیسی پر اس کانفرنس کے نتیجے میں جو کچھ طے ہوگااس پر عملدرآمد نہ ہوا تو یہ ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس ناکامی سے یہ رائے غالب آئے گی کہ سیاسی فریق اہم معاملات پر مل کر چلنے پر تیار نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کانفرنس میں پاکستان میں موجود طالبان یا دیگر انتہا پسند قوتوں کے حوالے سے واضح فیصلے سامنے آئیں ۔اسی طرح کراچی اور بلوچستان کے بارے میں بھی بہت سے امورپر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔قومی سکیورٹی پالیسی کو سامنے رکھ کر سب سے پہلے تو معاشرے کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔اس کے لیے قانونی یا غیر قانونی کی تمیز ختم کرکے سب کے لائسنس منسوخ کیے جائیں اور نئے لائسنسز پر پابندی لگادی جائے ۔پولیس اور انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرکے اسے میرٹ کے تحت منظم کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو موثر بنانا ہوگا۔ اسی طرح مختلف ایجنسیوں اور وزارت داخلہ کے درمیان باہمی رابطہ کے نظام کو موثر بنانا اور ہر طرح کے جرائم کے خلاف بغیر کسی تفریق کے قانون کو حرکت میں لانا بھی ضروری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں