"SAC" (space) message & send to 7575

معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہے ؟

کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو جانچنے کے لیے اس کا اخلاقی معیاربنیادی اہمیت کاحامل ہوتا ہے ۔ جو معاشرے اپنی اعلیٰ تہذیب، ثقافت، روایات اور اسلامی و اصلاحی تعلیمات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ زوا ل اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ بعض معاشروں میں ہمیں بظاہر ترقی اور خوشحالی نظر آتی ہے ، لیکن اندر سے وہ انتہائی بدنما ہوتے ہیں۔کچھ ایسی ہی صورتحال ہماری ہے ۔یہ معاشرہ ،جسے ہم اسلامی معاشرہ کہتے نہیں تھکتے ، بے شمار معاملات میں اسلامی تو کجا، ایک مہذب معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق بھی نہیں۔ بچوں اور بچیوں کے خلاف جرائم کی شرح میں اضافہ ہمارے اخلاقی معیار کے دعووں کے برعکس ہے ، اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے ۔ لاہور میں پانچ سالہ سنبل کے ساتھ درندگی کا واقعہ سامنے آیا اور اس کے فوری بعد فیصل آباد میں ثمینہ نامی 15سالہ لڑکی او راس کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فرسٹ ائیر کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہمارے معاشرے کی بڑی بھیانک تصویر پیش کرتا ہے ۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوابلکہ اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، والدین ، معاشرے کا فکری طبقہ اور علمائے کرام سمیت ریاست اور حکومت کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ آنکھیں بند کرکے معاملات کی حساسیت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم کی تحقیق کے مطابق 2012ء میں عورتوں اور بچیوں کے خلاف 7515مختلف نوعیت کے جرائم سامنے آئے ۔ ان میںسے 4766یعنی 63 فیصد واقعات کا تعلق صرف پنجاب سے ہے ،جبکہ سندھ میں ایسے 1628، خیبر پختونخوا میں 674، بلوچستان میں 167اور اسلام آباد میں 281جرائم سامنے آئے۔ جنسی جرائم کے پنجاب میں 676، سندھ میں 103، خیبر پختونخوامیں 14 ، بلوچستان میں11 اور اسلام آباد میں 18واقعات ہوئے ۔2013ء میں اب تک اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق عورتوں کے خلاف کل 2575جرائم میں 310جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں ۔بچوں کے حقوق کی تنظیم کی تحقیق کے مطابق 2012ء میںبچوں کے خلاف جنسی جرائم کے3861واقعات رپورٹ ہوئے ۔جنسی زیادتی کے جرائم کے یہ اعداد و شمار بالخصوص پنجاب ،جہاں کامیاب حکمرانی کے دعوے سب سے زیادہ ہیں،مظہر ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی عورتوں اورمعصوم بچیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات پر کافی شور برپا ہے ۔ بھارت میں نئی دہلی کی عدالت نے 26 دسمبر2012ء میں میڈیکل کی23سالہ طالبہ کے ساتھ بس میں گینگ ریپ کے چار مجرموں کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے ۔ بھارت میں انسانی اور عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں ،میڈیا اور دیگر طبقوں کے شدید دبائوکے باعث عدالت کو ان مجرموں کے خلاف بڑا فیصلہ کرنا پڑا ۔بھارت کی ٹور ازم کی وزارت کے مطابق 2013ء میں غیر ملکی سیاحت میں کمی واقع ہوئی ہے ، کیونکہ سیاحت کے بعض مقامات پر بھی اس طرح کے واقعات سے بھارت کو دنیا بھر میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہ کہنا مقصود نہیں کہ معصوم بچوں اور بچیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے جرائم کی ذمہ داری محض حکومت پر عائد ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے قانون کی کمزور عملداری ،پولیس کا نظام اور بالخصوص تفتیش کے معاملے میں کرپشن اور سیاسی دبائو کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت اور ریاستی ادارے معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر محض ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔جبکہ حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سخت قانون سازی ، عمل درآمد کے موثر نظام ، اداروں کی شفافیت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایسا ماحول فراہم کرے جو ان جرائم کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔محض بیان بازی اورقوانین میں سقم کا ماتم کرکے ہم اپنی معصوم بچیو ں اور بچوں کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکیں گے۔ایک فکری مغالطہ یہ ہے کہ اگر لوگ تعلیم یافتہ ہوں تو اس طرح کے جرائم میں ملوث نہیں ہونگے۔ جن ملکوں میں تعلیم کی شرح سو فیصد ہے، وہاں بھی بچیوں اور بچوںکے خلاف جرائم ہوتے ہیں ۔ اصل مسئلہ محض تعلیم کا نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی ہے ۔ یہ تربیت تعلیمی اداروں،گھروں، خاندانوں اور معاشرتی نظام سے جُڑی ہوتی ہے ۔ہمارے یہاں محض تعلیم دی جاتی ہے ، جبکہ تربیت کا فقدان ہے ، اسی لیے اس طرح کے جرائم ہوتے ہیں ۔مشہور قول ہے کہ ’’ جس گھر میں تعلیم ،تربیت اور نیک ماں ہووہ گھر تہذیب اور انسانیت کی درس گاہ ہوتا ہے ۔‘‘ ایک زمانے میں والدین بچوں کے روزمرہ کے معاملات کے بارے میں کافی حساس ہوتے تھے ۔مگر اب والدین بھی کم ہی توجہ دیتے نظر آتے ہیں۔بچوں کے سامنے والدین ہی کے کئی تضادات نمایاں ہوتے ہیں جو انھیں بھی گمراہ کرنے کا موجب بنتے ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کو تعلیم تو دینا چاہتے ہیں ، لیکن تربیت کے معاملہ میں خاصی غفلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح اساتذہ بھی اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دیتے ۔علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے ایجنڈے میں اوربہت کچھ نظر آتا ہے ،مگر معاشرے کی مجموعی تربیت کے معاملے میں اپنے اندرونی تضادات کے باعث وہ بھی ناکامی سے دوچار ہیں ۔ اشتہار، ڈرامے، فلمیں اور بے ہودہ پروگرام بھی نوجوان لڑکوں کو ایسے جرائم پر اکساتے ہیں ۔بھارت میں ان کی اپنی فلموں اور ڈراموں کے خلاف ایک تحریک چل رہی ہے او ران کے بقول بھارت کی فلمیں اور ڈرامے عورتوں کے خلاف جرائم کا سبب بن رہے ہیں، لیکن ہمارے یہاں اس طرح کی تحریکیں بہت کم ہیں۔ علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دیگر طبقات کی ترجیحات محض اقتداریا طاقت کے حصول کے گرد گھومتی ہیں۔وہ سماجی ترقی اور فرسودہ روایات کی تبدیلی کے لیے کوشاں نظر نہیں آتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایسی بیہودگیوں سے پاک ہو تو ہمیں مختلف پہلوئوں پر توجہ دینی چاہیے۔مثلاً ریاستی و حکومتی ترجیحات میںبچوں اور بچیوں کا تحفظ ، سیاسی دبائوکا خاتمہ،پولیس کے نظام میں اصلاحات اور ان میں موجود جرائم پیشہ لوگوںکے خلاف سخت ایکشن، تعلیمی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں ، اخلاقی تربیت ،قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ،طبقاتی تفریق کا خاتمہ، موثر نگرانی کا عمل ،خاندانی نظام میں اصلاحات، میڈیا کا ذمہ دارانہ رویہ،اورمعاشرے میں اصلاحی ،سیاسی و سماجی تحریکوں کو تقویت دے کر ہی بچوں اور بچیوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے عمل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں