اچھی حکومت کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مشکل حالات میں اپنے سیاسی وژن ، کمٹمنٹ ، بہتر ترجیحات ، مضبوط ایجنڈے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ترقی و خوشحالی کا راستہ تلاش کرتی ہے ۔ جمہوری حکومتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں توکئی سوالیہ نشانات اُبھرتے ہیں ۔ حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے چند مہینے کافی نہیں،اس لیے یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں مسائل کے حل میں ناکام ہوگئی ہیں ۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں ۔ عوام کے مقابلے میں سیاسی اشرافیہ او راہل دانش حکومتوں کے ابتدائی دنوں میں ان کی سمت ، ترجیحات، پالیسی اور عملی اقدامات دیکھ کر مستقبل کی تصویر کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وفاقی حکومت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی)پلڈاٹ( کی اس جائزہ رپورٹ سے مطمئن نظر آتی ہے کہ ملک میں62فیصد لوگ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ،جبکہ32فیصد کو حکومتی کارکردگی پر تحفظات ہیں ۔ رپورٹ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی کافی پزیرائی کی گئی ہے ۔ جائزہ کے مطابق شہباز شریف کی مقبولیت59فیصد ہے ۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی میں پنجاب کا این پی ار73،کے پی کے 26، بلوچستان 18اور سندھ کا-2ہے۔ حکمرانوں کے لیے اپنی حمایت میں اس طرح کے سروے نتائج یا رپورٹس طاقت کے ٹیکے کی مانند ہوتی ہیں ۔ پلڈاٹ کے حالیہ جائز ہ میں کئی نقاط ایسے بھی ہیں جو حکومتوں کے لیے پریشان کن ہیں ۔ مثال کے طو رپر لوڈ شیڈنگ کے مسئلہ پر 52فیصد لوگوں کے مقابلے میں 46فیصد لوگ حکومتی کارکردگی سے نالاں ہیں ۔دہشت گردی سے نمٹنے میں 46فیصد کے مقابلے میں 51فیصد لوگ غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی پر57فیصد کے مقابلے میں 38فیصد کے تحفظات ہیں ۔کرپشن اور بدعنوانی میں54فیصد کے مقابلے میں 41فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔فورسز سے تعلقات میں جہاں 58فیصد لوگ مطمئن ہیں ، وہیں32فیصد غیر مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔48فیصد لوگوں کی رائے میں وفاقی حکومت اقربا پروری میں گھری نظر آتی ہے ۔ امن وامان ، دہشت گردی ، مہنگائی ، بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل اس جائز ہ رپورٹ کا حصہ نہیں بنے ، جہاں حکومتی کارکردگی کافی مایوس کن ہے ۔ مثال کے طور پر جب حکومت نے اقتدار سنبھالا تب سے مختلف اشیا کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافہ ہوا ۔پٹرول96سے 110روپے، بجلی5.75روپے فی یونٹ سے12روپے فی یونٹ، چاول 120سے150روپے، خشک دودھ560سے600روپے اور ایل پی جی کی قیمت 115سے145روپے تک جاپہنچی۔ اسی طرح آٹا، چینی ، دالیں ، ڈیزل، سی این جی سمیت سب کچھ مہنگا ہوگیا۔ حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف سے 6.6ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ کیا ہے ۔لون پروگرام کے تحت آئی ایم ایف نے پاکستان سے تقاضا کیا ہے کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کردیا جائے ۔ پاکستانی معیشت کو بڑھاوا دینے کے لیے لازم ہے کہ فرسودہ ، ٹوٹا پھوٹا اور بدعنوانی میں لتھڑا ہوا موجودہ ٹیکس ڈھانچہ مکمل طو رپر بدل دیا جائے۔بہرحال یہ ایک سخت فیصلہ ہے کہ انہی لوگوں سے مزید ٹیکس وصول کیا جائے جو آپ کی سیاسی بنیاد ہیں جن میں تاجر برادری ، صنعت کاراور پراپرٹی ڈیلر شامل ہیں ۔ ادھر وزیر اعظم ، ان کے وزرا اور صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزرا ء اسمبلیوں میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم نے وزراء کی پارلیمنٹ میں مسلسل غیر حاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے ، لیکن جب وہ خود پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے نہیں آئیں گے تو وزراء کیوں اس عمل کو یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم کو کم ازکم پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اسمبلی میں آئیں ۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کی باتیں کرنا آسان ہے ، لیکن جب کپتان سمیت حکومتی وزرا ء پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس سے جمہوری اداروں کی بالادستی کی نفی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ، صوبائی سطح پر سٹینڈنگ کمیٹیاں ابھی تک مکمل نہیں ہوسکیں ۔ وفاقی سطح پر دفاع اور خارجہ کا اہم وزارتیں ابھی تک وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم کے دوروں میں وہ ،ان کے بھائی اور بھتیجوں کی ہر معاملے میں شمولیت ظاہر کرتی ہے کہ قومی معاملات کو ایک پارٹی یا خاندان کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بلوچستان کی حکومت ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بقول اس تاخیر کی وجہ صوبائی مسلم لیگ )ن (کی قیادت ہے ۔ بلوچستان کے بحران کے حل میں بھی ابھی تک ایسے اقدامات نہیں کیے گئے جو ظاہر کریں کہ مسئلہ بلوچستان حل کی جانب گامزن ہے۔ کراچی میں آپریشن کا عمل جاری ہے ، لیکن سیاسی سمجھوتوں کے ساتھ ۔ کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کو آپریشن کے نتیجے میں قانون کی گرفت میں آنا چاہیے تھا ، وہ کراچی سے بھاگ گئے ہیں ۔دہشت گردی کے معاملے میںاے پی سی او را س کے اعلامیہ کے باوجود حکومت کافی ابہام کا شکار ہے ۔ حکومت عملی طو رپر مذاکرات اور طاقت کے استعمال کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے ۔ اس لیے اب تک کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے تو درست سمت اور ترجیحات کی درجہ بندی میں بحرانی کیفیت نظر آتی ہے۔ ہم بھاری اور مہنگے منصوبوں کے ساتھ ترقی کے عمل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ہماری بنیادی اور اہم ترجیحات کے برعکس ہیں ۔ لوگوں کو معاشی بحران سے نجات ،دہشت گردی کے خاتمے ، آئی ایم ایف سے گریز ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی ،امن وامان، جان ومال کے تحفظ، اسلحہ سے پاک معاشرہ اور قانون کی حکمرانی کو موثر بنانے میں زیادہ دلچسپی ہے ، مگرہم حکمرانی کے بحران کو مرکزیت پر مبنی نظام کی بنیاد پر ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔ اختیارات کی منتقلی اور مقامی نظام کو مضبوط کرنا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ۔ طرز حکمرانی کا موجودہ انداز آنے والے دنوں میں ہمارے مسائل کی سنگینی اور بگاڑ میں اضافہ کرے گا،کیونکہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ان ہی غلطیوں کا اعادہ کر رہے ہیں جو نظام کی خرابیوں کوتقویت دینے کا باعث ہیں۔حکمران طبقہ کو ایسی غلطیوں سے بہر صورت بچنا چاہیے۔