وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ڈرون حملے پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمہ میں رکاوٹ ہیں ۔ان کے بقول یہ حملے ملکی خود مختاری کے بھی منافی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہمیں عالمی قوانین کے تحت ہی لڑنی چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ڈرون حملے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کے اس مقدمہ کو امریکہ اور دنیا کے دیگر حکمرانوں کی طرف سے مناسب پذیرائی نہیں مل رہی۔ ان حملوں کے حوالے سے امریکہ کا نقطہ نظر مختلف ہے ۔اسی جنرل اسمبلی سے امریکی صدر اوباما نے بھی خطاب کیا ۔ ان کے بقو ل ڈرون حملے ہماری سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کا حصہ ہیں ۔جو لوگ اس وقت دنیا میں ہمارے لیے خطرہ ہیں، انہی کو ڈرون حملوںسے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ہماری یہ حکمت عملی اب تک کارگر ثابت ہوئی ہے ، اس لیے جہاں بھی ہماری سفارت کاری ناکام ہوگی وہاں ڈرون حملوں سمیت طاقت کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق2005ء سے22ستمبر 2013ء تک280ڈرون حملوں میں 2564افراد، جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، جبکہ 3041کے قریب لوگ زخمی ہوئے ، جن میں سے اکثریت معذور ہو گئی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان اس وقت بدترین دہشت گردی کا شکارہے ، لیکن ڈرون حملے دہشت گردی کو کم کرنے میں ناکا م رہے ہیں۔ انسانی اور قانونی حقوق کے اداروں کے نزدیک یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ کیا ہم دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے معصوم لوگوں کو بھی ٹارگٹ کرسکتے ہیں؟عالمی قوانین ڈرون حملوں سے اس طرز کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک ریسرچ فیلوDaniel Bayman کی تحقیق کے مطابق ڈرون حملوں میں زیادہ تر عام لوگ نشانہ بنتے ہیں جو براہ راست کسی جرم میں حصہ دار نہیں ہوتے اور ڈرون حملوں سے ہلاک ہونے والے 90فیصد عام شہری ہیں ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر نظر ڈالیں تو اس کی شق39,40,41,42 واضح طو رپر کہتی ہے کہ ’’ ڈرون حملے قانونی گرفت میں آتے ہیں‘‘ ۔اسی طرح ہیگ کنونشن پانچ کے آرٹیکل 25 کے مطابق ’’ کسی بھی ذریعے سے قصبوں، دیہاتوں ، رہائشی جگہوںپر جن کا دفاع نہ کیا جارہا ہو، حملہ یا بمباری ممنوع ہے ‘‘۔جبکہ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33میں لوگوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کسی ایسے شخص کو ، جسے تحفظ حاصل ہو،کسی ایسے جرم میں سزا نہیں دی جاسکتی جو اس نے بذات خود نہ کیاہو۔ اجتماعی سزا اور اس سے ملتے جلتے اقدامات یا دہشت گردی کی بھی ممانعت ہے‘‘۔ بہت سے بین الاقوامی قوانین ہیں جو ڈرون حملوں کو براہ راست’’ماورائے عدالت قتل‘‘قرار دیتے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ ان علاقوں میں جہاں ڈرون حملے ہوتے ہیں، مقامی آبادی ان لوگوں کو علاج ومعالجے کی سہولت اور پناہ دیتی ہے۔ اس منطق کے بارے میں عالمی قانون موجود ہے۔ مثال کے طور پرجنیوا کنونشن ایک کے آرٹیکل 18کے مطابق’’کسی آدمی کو کبھی بھی اس بات پر نہ تو پریشان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزادی جاسکتی ہے کہ اس نے زخمی یا بیمار کی عیادت یا تیمارداری کی ہے ‘‘۔ ایک بنیادی فکری مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ کیا امریکہ اور پاکستان کے درمیان ڈرون حملوں کے استعمال پر کوئی خفیہ معاہدہ موجود ہے؟یہ ابہام اس لیے بھی موجود ہے کہ امریکی انتظامیہ کے بیشتر افراد برملا کہتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہورہے ہیں ۔ستم ظریفی یہ کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا بھی ایبٹ آباد کمیشن میں اعتراف کرچکے ہیں کہ سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ زبانی معاہدے کے تحت ڈرو ن حملے ہوتے ہیں ۔ پچھلے دنوں اے پی سی میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ پاکستان کی حکومت ڈرون حملوں کے خلاف سلامتی کونسل میں اپنا مقدمہ لے کر جائے گی، لیکن ا ب بعض سیاسی جماعتوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگر سلامتی کونسل میں ووٹنگ کی مدد سے ڈرون حملوں کو جائز قرار دے دیا گیا تو ان حملوں کو قانونی جوازمل جائے گا۔اقوام متحدہ کے بارے میں پاکستان میں پہلے ہی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ امریکی مفادات کے تابع ہے ۔امریکی ادارہ پیوکی ریسرچ کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستانیوں کی اکثریت اس ادارے کے بارے میں شدید تحفظات رکھتی ہے ۔ یہ بجا ہے کہ ہم سفارتی محاذ پر دنیا کو ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی بات سمجھانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس ناکامی کی وجہ ہماری اپنی کمزوری اور بڑی طاقتوں کے سامنے نفسیاتی دبائوکی پالیسی ہے ۔ ڈرون حملوں کی طرح کے تضادات محض بیان بازیوں، تقریروں سے بھی ختم نہیں ہوتے۔اس کے لیے سیاسی ، سفارتی اور قانونی محاذ پر ایک مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ طاقت کا بے جا استعمال دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور جو معصوم لوگ ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں ان کے خاندان میں نفرت اور بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس سلسلے میں بے بس ہے یا امریکی پالیسی کے فریم ورک میں رہ کر معاملات کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تضاد سے ہمیں جلد از جلد باہر نکلنا ہوگا، وگرنہ ڈرون حملے دہشت گردی کو روکنے کی بجائے اسے مزید تقویت دیں گے، جو ملک و قوم کے لیے خطرناک ہے۔