عوام کو اس وقت اچھی حکمرانی کے حوالے سے دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ اول: مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی غلط سمت اور ناقص منصوبہ بندی ۔ لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ حکمرانوں کے پاس مسائل کے حل کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ وہ حکمران طبقے میں شامل افراد کی تضادات پر مبنی باتیں سن کر پہلے سے زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کون سچ اور کون جھوٹ بول رہاہے ۔دوئم: جہاں لوگ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں ، وہیں وہ حزب اختلاف کی جماعتوں سے بھی نالاں ہیں۔ عام آدمی کے علاوہ سیاسی اشرافیہ بھی پریشان ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں کہاں ؟ معاشرے کو عوامی مفاد کے لیے کام کرنے والی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ تصور کرنا کہ اچھی حکومت یا اچھے حکمران خود بخود سامنے آجاتے ہیں ، ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت کو اچھی حکمرانی کی طرف مائل کرنے میں حزب اختلاف کا کردار اہم ہوتا ہے ۔حزب اختلاف پارلیمنٹ میں ہو یا پارلیمنٹ سے باہر، اس کا مجموعی کردار اچھی حکومت کے تصور کے ساتھ جڑا ہوتاہے ۔جہاں حزب اختلاف مضبوط اور منظم ہوگی وہیں اس کی سمت کے درست ہونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے ۔لیکن یہاں حزب اختلاف کی جماعتیں لوگوں میں امید کا مرکز بننے کی بجائے اقتدار کے جوڑ توڑ کے کھیل میں مصروف ہیں۔ لوگ جب حکومت سے مایوس ہوتے ہیں تو وہ اپنی امیدیںحزب اختلاف سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ اچھی اور فعال حزب اختلاف حکومتی بے حسی اور عوامی مفاد کے خلاف پالیسیوں پر خاموش بیٹھنے کی بجائے مثبت تنقید کرتی ہے ۔حزب اختلاف بنیادی طور پر مستقبل کی حکومت یا متبادل حکومت کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے ،مگر جو فکری انحطاط ہمیں حکومت کی سطح پر نظر آتا ہے، وہی عمل ہم حزب اختلاف میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ سابق حکومت میں ’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘کے نعرے کو بہت تقویت ملی ۔ مسلم لیگ)ن(کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی کہ وہ حقیقی اپوزیشن کم اور فرینڈلی زیادہ ہے ۔ سابق حکومت میں جو کردار مسلم لیگ)ن(نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف بطور فرینڈلی اپوزیشن ادا کیا ، اسی طرز کا کردار اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ)ن(کی حکومت کے لیے ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس وقت مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ)ن(، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ)ن(اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت ہے ،یعنی تمام بڑی جماعتیں ایک ہی وقت میں اقتدار اور حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہیں۔حزب اختلاف کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ ماڈل ہماری سیاست میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پرایک ایسی مفاہمت پر مبنی ہے جس میں کوئی کسی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتا۔ عملی طور پر یہ تجربہ کہ آپ بیک وقت حکومت چلائیں اور حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کریں ، بظاہر ناکامی سے دوچار نظر آتا ہے ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومتی کارکردگی پر وہ سیاست نہیں کی جو ان کی ذمہ داری بنتی ہے ۔پیپلز پارٹی میں بہت سے لوگ پارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن کی پالیسی پر حیرت زدہ ہیں، حالانکہ پیپلزپارٹی کو 2013ء کے انتخابی نتائج کے بعد اپنی پارٹی کی ساکھ بحال رکھنے کے لیے جاندار سیاست کی ضرورت ہے جو مضبوط حزب اختلاف کے کردار سے وہ ادا کر سکتی ہے۔ اسی طرح عمران خان بھی بطور اپوزیشن ابھر کر سامنے نہیں آئے ؛ حالانکہ پیپلز پارٹی کی کمزور حزب اختلاف کے بعد عمران خان اس سیاسی خلا کو بہتر انداز میں پُرکرسکتے تھے۔غالباً عمران خان خیبر پختونخوامیں جاری دہشت گردی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پھنس گئے ہیں یا ان کی توجہ کا مرکز خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت بنی ہوئی ہے ۔سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے بیشتر حصوں میں وہ وقت دینے کے لیے نظر نہیں آتے۔ مسلم لیگ)ق(انتخابات میں شکست کے بعد پس پردہ چلی گئی ہے ۔ چوہدری برادران کا موقف یہ نظر آتا ہے کہ انہیںاس وقت کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی بجائے خاموشی سے حکومت کو موقع دینا چاہیے کہ وہ کچھ کرکے دکھائے ۔ چوہدری برادران کو یقین ہے کہ حکومت لوگوں کو کچھ نہیں دے سکے گی۔ اس صورت میں ان کی جماعت کا کردار دوبارہ ابھر کرسامنے آئے گا او روہ اپنا سیاسی راستہ تلاش کرلیں گے۔ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں پھنسی ہے، اس لیے دوسرے معاملات فوری طور پر اس کی ترجیحات کا حصہ نہیں ۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ منظم نہیں ۔ حزب اختلاف کا ایک بڑا کردار مضبوط، موثر اور مشترکہ پلیٹ فارم کی تشکیل ہوتا ہے۔ اصولی طور پر لوگوں کو یہ پیغام دیا جانا چاہیے کہ حزب اختلاف تقسیم نہیں بلکہ کچھ بنیادی نکات پر متفق ہے۔ حکومت کی کامیابی یہ ہے کہ حزب اختلاف تقسیم رہے او ران کے ایک ہونے کے امکانات بھی فی الحال کم نظر آتے ہیں ۔ دہشت گردی، ڈرون حملے ، کراچی اور بلوچستان کا بحران ، مہنگائی ، آئی ایم ایف کی سخت شرائط، بجلی ، پانی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ،سٹیڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل، قانون سازی کے معاملات، پاک امریکہ اور پاک بھارت تعلقات، چیئرمین نیب کی تقرری ، کئی اہم وزارتوں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرریوں سے گریز، سرکاری یا ریاستی اداروں کی نج کاری سمیت لاتعداد مسائل ہیں جن پرحکومتی کمزوری کے باو جود حزب اختلاف اپنے کردار میں کمزور نظر آتی ہے ۔سیاسی جماعتوں کایہ سمجھنا کہ لوگوں کو منظم اور متحرک کیے بغیر محض میڈیا کے ٹاک شوز یا بیان بازیوں کے ساتھ حزب اختلاف کو کامیاب کیا جاسکتا ہے ،غلط ہے ۔ حکومت کی ناکامی کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی ناکامی لوگوںمیں مایوسی پیدا کرتا ہے۔لوگوں میں یہ سو چ کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی ایک دوسرے کے مفادات کوتقویت دے کر اقتدار یا طاقت کے کھیل کا حصہ ہیں، خطرنا ک رجحان ہے۔ اچھی حکمرانی اور جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنے داخلی مسائل کے باوجود چند بنیادی نکات پر خود بھی منظم ہونا ہوگا اور لوگوں کو بھی منظم کرنا ہوگا۔ تنہا کوئی سیاسی جماعت بغیر کسی مشترکہ حزب اختلاف کے کوئی بڑی مزاحمت پیدا نہیں کرسکتی۔ شخصی مسائل ،آپس کے اختلافات ، فرینڈلی اپوزیشن، ایجنڈے کا مبہم ہونا،تنہا پرواز،ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا اور محض اقتدار کے حصول کی سیاست سے حزب اختلاف کی جماعتوں کو باہر نکلنا چاہیے۔لیکن کیا یہ جماعتیں حکومت کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت پیدا کر سکیں گی؟اس سوال کا جواب حزب اختلاف کی جماعتوں اور ان کی قیادت کو ضرور تلاش کرنا چاہیے۔