پاکستان کی ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ مضبوط کم اور کمزور زیادہ نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت عملی طور پر ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے موجودہیں ۔اگرچہ ریاست دعویٰ کرتی ہے کہ وہ برابری اور مساوات کے اصول کے تحت سب کے لیے ایک جیسا رویہ یا طرز عمل رکھتی ہے مگر لوگوں میں یہ احساس بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم یاناہمواریاں عملی طور پر ریاست او ر حکمرانوں کے فیصلوں کی پیدا کردہ ہیں۔ ایک ذمہ دار اور شفاف ریاست لوگوں کے درمیان رنگ ، نسل،مذہب، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر تفریق کرنے کی بجائے ان کے حقوق منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر فراہم کرتی ہے، مگر یہاں ایسا نہیں ہوسکا۔ ریاست اور حکمرانوں سے ناراضگی ہر طبقہ میں موجودہے‘ لیکن بلوچستان کا نوجوان اس ناراضگی میں سب سے آگے ہے۔ ملک کی ایک معروف تنظیم ’’ سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز‘‘کے تعاون سے بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ و طالبات کا ایک وفد لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز )لمز( میں آیا۔ اس وفد سے مجھ سمیت کچھ دیگر دوستوں کو ملنے اور ان کے خیالات کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ان کا مضبوط موقف تھا کہ ریاست اور حکمران طبقات نے بلوچستان اور بلوچ لوگوں کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دیوار سے لگادیا ہے ۔ ان کے بقول حقوق کے حصول کی ہماری جدوجہد کو بلاوجہ بغاوت کا نام دے کر دیگر صوبوں میں ہمارے خلاف نفرت بڑھائی جارہی ہے۔ حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے مفادات کی خاطر کمزور لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ وفاق اور پنجاب کو سمجھنا ہوگا کہ ہم آزادی کی نہیں بلکہ حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔یہ تصور غلط ہے کہ بلوچ نوجوان وفاق اور پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ یہ نوجوان طلبہ و طالبات بلوچستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ افراد، فرقہ ورانہ فسادات، تعلیمی اداروں کی بدحالی ،مقامی لوگوں کی سرکار کے ہاتھوں تذلیل، خوف و ہراس کی فضا، دہشت گردی، معاشی پسماندگی اور محرومیوں سے سخت نالاں نظر آتے ہیں ۔بالخصوص ٹارگٹ کلنگ اور لاپتہ افراد کے حوالے سے ان میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ان کے بقول لاپتہ افراد اورٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے خاندانوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ان واقعات میں کون ملوث ہے ؟کوئٹہ میں سکیورٹی چیکنگ کے نام پر پولیس کا تلاشی کا انداز کافی توہین آمیز ہے۔ان نوجوانوں کے بقول ہم اب بھی مذاکرات اور مکالمہ پر یقین رکھتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور اس حصہ کے ساتھ جو سلوک ریاست، حکومت اور اداروں نے اختیار کیا ہوا ہے اس پر آپ کو بھی ہمارے حق میں آواز اٹھانی چاہیے۔ان کے بقول ایک طرف وفاق ہے تو دوسری طرف حکمرانی کی ڈرائیونگ سیٹ پر پنجاب اور اس کی اسٹیبلشمنٹ کو بالادستی حاصل ہے۔یہاں جو بھی حکومت بنتی ہے وہ طاقت کے انہی مراکز کی مددسے بنتی ہے ۔ ہمیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں‘ لیکن نظر یہ آتا ہے کہ وہ بھی وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں کے درمیان محض ایک کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ ان نوجوان طلبہ و طالبات نے سوال اٹھایا کہ ہمیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا درس دیا جاتا ہے ‘ لیکن بلوچستان کو چھوڑیں‘ ملک کے کس حصہ میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے؟ ملک کے تمام کمزوراور بالخصوص بلوچستان کے لوگوں کو تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ایک طالبہ کے بقول وہ پہلی مرتبہ لاہور آئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ایک نئی دنیا میں آئے ہیں ۔ اگر یہ پاکستان ہے تو ہمیں اس طرح کے پاکستان سے کیوں محروم رکھا گیا؟ ایک طالبہ کے بقول ہمارا صوبہ گیس پیدا کرتا ہے، لیکن صوبہ کے صرف پانچ اضلاع میں گیس موجود ہے ، باقی سب گیس سے محروم ہیں۔ آخر کیوں؟ ہمارے اس سوال پر کہ 18ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج کے بعد صوبائی خود مختاری کا مقدمہ مضبوط ہوا ہے اور اب مسائل کی کنجی وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگئی ہے‘ نوجوانوں کا موقف تھا کہ صرف کاغذوں میں۔ اس کے کوئی مثبت اثرات بلوچستان کے لوگوں پر نہیں ہوئے۔ آئین اور قانون تو پہلے بھی موجود ہے اور اس میں جو حقوق کی ضمانت ہمیں دی گئی‘ حقیقتاً وہ بھی ہم سے چھین لی گئی ہے۔ اس سوال پر کہ پچھلے چند برسوں میں وسائل، مواقع اور ترقیاتی فنڈکے نام پر بلوچستان کو بہت کچھ دیا گیا ہے ، اب آپ کو بھی چاہیے کہ مقامی طور پر احتساب کے عمل کو آگے بڑھائیں‘ ان کا موقف تھا کہ اول تو یہ ان حکمرانوں کو دیے گئے جو اسلام آباد کی مدد سے ہم پر مسلّط کیے گئے۔ دوئم‘ یہاں کے حکمران جو لوٹ مار کرتے ہیں اس میں وفاق برابر کا حصہ دار ہوتا ہے اور انہی کی حمایت سے مقامی حکمران بدعنوانی اور کرپشن کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے بقول یہ تصور غلط ہے کہ وہاں پنجابی لوگوں کو بلوچ ماررہے ہیں ۔ وہاں ہر زبان کے لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے اور فرقہ ورانہ فسادات کو تقویت دی جارہی ہے۔ یہ کسی ایک گروپ کا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان میں رہنے والے تمام لوگ دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ ریاست اور اسلام آباد کی حکمرانی نے ان کے لیے یقینا مسائل پیدا کیے ہوں گے، لیکن ان کے اپنے علاقوں میں بننے والی قوم پرستوں کی حکومت اور بڑے جاگیر داروں کی حکمرانی بھی تو مسائل کی ذمہ دار ہے۔ سارا قصور اسلام آباد کا نہیں۔ کچھ مسائل کا تعلق داخلی سیاست سے بھی ہے او راس کا ادراک بلوچ نوجوانوں کو بھی کرنا چاہیے۔کچھ ماہ قبل ہم نے بلوچستان کا دورہ کیا تووہاں اعدادو شمار ظاہر کرتے تھے کہ فوج نے وہاں ترقی کے کافی کام کیے ۔ فوج میں بلوچ نوجوانوں کی بھرتی کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے ۔اسی طرح سیلاب اور زلزلہ میں امدادی کاموں میں بھی فوج کا ادارہ پیش پیش رہا‘ لیکن اس کے باوجو د بلوچ نوجوان فوج کے مجموعی کردار پر تحفظات رکھتے ہیں۔ ان تحفظات کو دور کرنا عسکری اور سیاسی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ان ناراض نو جوانوں کی آواز کو سننا ہوگا، اس آواز کو محض جذباتی یا غصہ اور نفرت کا اظہار سمجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی سے ہمیں اور اہل اقتدار کو بھی گریز کرنا چاہیے‘کیونکہ اگر ان نوجوانوں میں غلط فہمیاں ہیں تو ان کو دور کرنا حکومت اور اہل دانش پر لازم ہے۔ قومی میڈیا کو بھی بلوچستان کے عام آدمی کے مسائل پر زیادہ توجہ دینی ہوگی اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ کیونکہ نوجوانوں میں پائی جانے والی رنجشوں اور محرومیوں کو دور کرکے ہم انھیں ترقی، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکیں گے۔بلوچستان کا مسئلہ محض صوبائی مسئلہ نہیں‘ ایک قومی مسئلہ ہے اور قومی سطح پر ہی اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔