"SAC" (space) message & send to 7575

اخلاقی اور نظریاتی برتری کی جنگ

پاکستانی سماج میں اب اخلاقیات اور نظریات کا سوال بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ہم ترقی اور خوشحالی کی منازل تو طے کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اس ترقی کے عمل میں ہماری بنیاد فکری اور اخلاقی کم اور مادی زیادہ ہے ۔مادی ترقی کے حوالے سے ہم نے یقینا بہت کچھ حاصل کیا مگر معاشرے کی اخلاقی ،اصلاحی اور نظریاتی قدریں کافی حد تک تبدیل ہوگئی ہیں۔ آپ سیاست، سماجیات، مذہب، معاشیات سمیت کاروباری اور معاشرتی معاملات کو دیکھیں تو اس میں گراوٹ کے آثار نمایاں ہیں، اور ہم زندہ رہنے یا ترقی کرنے کے جن نئے معیار ات یا اصولوں کو تقویت دے رہے ہیں ،ان میں اخلاقی اور نظریاتی فکر ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب انفرادی اور معاشرے کے مجموعی کردار کو ایک خاص انداز سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا۔تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور گھریلو سطح پر اخلاقی طرزِ عمل کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، مگر اب کہا جاتا ہے کہ پرانے خیالات کی جگہ نئے خیالات نے لے لی ہے اور لوگوں کی سوچ میں جو تبدیلی آئی ہے اس کو اسی انداز میں قبول کرنا چاہیے،وگرنہ ماضی کا ماتم سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں دے سکے گا۔وقت کے ساتھ ساتھ انسانی خیالات اور عمل میں تبدیلی کا آنافطری امر ہے ، لیکن یہاں اصل مسئلہ معاشرے کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے فرد یا ادارہ کی کردار سازی اور اس کے طرز عمل کا ہے۔ پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی جنگ کا دور اہم رہا ہے ۔ اس دور میں نظریاتی فکر اور ٹکرائو نے سماج میں لکھنے، پڑھنے اور مکالمہ کے کلچر کو جنم دیا۔ اچھی کتابیں اور اچھی تحریریں اس دور کا خاصہ تھیں۔لوگوں کے اہداف بڑے واضح تھے ۔ وہ ایک خاص فکر اور سوچ کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے ۔ اسی سوچ اور فکر کو بنیاد بنا کر لوگوں نے اپنی اپنی سطح پر انفرادی اور اجتماعی جدوجہد میں حصہ لیا۔ طلبہ، مزدور اور صحافتی تنظیموں نے سیاست ، جمہوریت اور عا م لوگوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کرکام کیا۔اس دور میں آمرانہ نظام کے خلاف جو جدوجہد کی گئی وہ بھی اہم ہے ۔لیکن80ء کی دہائی میں نظریاتی محاذکمزور پڑنے لگا اور اس کمزوری کے نتائج ہمیں آج کے سیاسی منظرنامے میں بڑے واضح نظر آرہے ہیں ۔ اب آپ لوگوں کے سامنے اخلاقیات اور نظریات پر مبنی مکالمہ کریں تو فکری مغالطے پیدا کیے جاتے ہیں ۔ ایک فکری مغالطہ یہ ہے کہ اخلاقیات پر بات کرنے کا مقصد معاشرے کی مذہبی بنیادو ں پر تشکیل ہے ۔حالانکہ معاشرے کی فکری بنیاد چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی اخلاقی عمل تو ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے ۔جب ہم معاشرے کی اخلاقی بنیاد پر بات کرتے ہیں تو اس سے مراد سچائی ، ایمانداری، برابری، عدل، انصاف، وسائل کی منصفانہ تقسیم، ایک دوسرے کی مدد او ر معاونت کا جذبہ اور جھوٹ، مکاری، فراڈ اور دھوکہ دہی سے گریزہے ۔ان معاملات کو محض مذہبی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ ایک بہتر سماج کی تشکیل کا اہم حصہ ہوناچاہیے ۔ معاشروں میں یہ ضابطے قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے نظام سے بھی لاگو ہوسکتے ہیں ، لیکن اصل مسئلہ فرد کی تربیت کا ہے ۔کیونکہ فرد یا افراد کی تربیت کسی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اسی لیے دنیا بھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو لازمی تصور کیا جاتا ہے ۔ایک تاثر یہ ہے کہ اب سرمایہ اور پیسہ اصل طاقت ہے، اس لیے نظریات کی اہمیت ختم ہوگئی ہے ۔ لیکن کیا ہم محض سرمائے کی بنیاد پر کوئی منظم معاشرہ قائم کرسکتے ہیں ؟اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ پاکستان کے معاملات پر نظر ڈالیں تو یہاں طاقت یا وسائل کے حصول کی جنگ جاری ہے ۔یہ جنگ فطری ہے ،لیکن ہم جائز و ناجائز ہر طرح اس جنگ کو جیتنا چاہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہماری سیاست دیکھیں جو صرف حصول اقتدار کا کھیل بن گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب جو لوگ سیاست پرحاوی ہیں وہ اصولوں سے زیادہ ذاتی مفادات کی سیاست کرتے ہیں ۔اس مفاداتی سیاست میں مسئلہ محض اقتدار کا حصول نہیں بلکہ اس کو کاروبار بڑھانے اور دولت کمانے کا ذریعہ بھی بنالیا گیا ہے ۔سیاست میں جھوٹ ،مکاری ،وعدہ خلافی ،بُغض اور کینہ پروری کا غلبہ نظر آتا ہے ۔جب کہا جاتا ہے کہ سیاست سے مراد نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اچھے اصولوں کی بالادستی ہے ، تو اسے کتابی گفتگویا محض آئین کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ منطق یہ دی جاتی ہے کہ حقائق کی دنیا بدل گئی ہے اور جدید اصولوں کو نظر انداز کرکے ہم کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ایک اور فکری مغالطہ کرپشن اور بدعنوانی کے معاملے میں پیدا کیا جاتا ہے ۔ پاکستا ن میں کرپشن کی جڑیں اوپر سے لے کر نیچے تک سرایت کرگئی ہیں ۔ اس میں کوئی ایک فریق نہیں بلکہ سب کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں ۔ آپ کرپشن یا بدعنوانی کے خلاف بات کریں تو دلیل دی جاتی ہے کہ یہ آج کے عالمی سرمایہ درانہ نظام کا لازمی جز ہے۔ اس سوچ کی بنیاد پر معاشرے نے عملی طور پرسماجی اور انتظامی بنیادوں پر کرپشن کو قبول کرلیا ہے۔ چنانچہ عام لوگ بھی اخلاقی معیارات کی پاسداری کرنے کی بجائے ان طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے خود بھی اس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہو وہاں انتشار پیدا ہونے لگتا ہے اور ساتھ ساتھ اخلاقی قدریں بھی بدل جاتی ہیں۔ اسی طرح مذہبی تعلیمات کو بھی محض مذہبی رسومات اور عبادت تک محدود کردیاگیاہے۔ حالانکہ عبادات لوگوں کے طرز عمل اور فکر پر بہتر اثرات مرتب نہ کریں تو محض رسمی کارروائی ہیں۔وہ ادارے جو کسی معاشرے کو بنیاد فراہم کرتے ہیں،جن میں استاد ، والدین، رہنما ، دانشور، علمائے کرام ، سماجی علوم کے ماہر شامل ہیں‘ سب کے سب زوال پذیر ہیں۔ ان اداروں سمیت معاشرے کی خرابی کی بنیادی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ اچھا معاشرہ محض دولت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی وسائل‘ فکری بلوغت اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ نموپذیر ہوتا ہے۔ اس کے لیے دلیل اور منطق کو ترقی کی بنیاد بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف اخلاقی اصول ، فکر اور ضمیر کو برتری دی جاتی ہے، لیکن ہم ان سب چیزوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ معاشرے میں طاقت اور دولت کے مقابلے میں فکر یا نظریات کی حکمرانی کب ہوگی،کیونکہ معاشرے تو نظریات کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں۔پاکستان کا مسئلہ کافی گمبھیر ہے اور اس کا حل شاید موجودہ نظام اور کارپردازان کے بس کی بات نہیں۔ان سے بڑی خیر کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہوگی۔حالات غیر معمولی ہوں تو عمل بھی غیر معمولی درکار ہے جو یہاں مفقود ہے۔ ہمیں کچھ بڑے فیصلے کرنے ہیں۔کینسر جیسے موذی مرض کا علاج ڈسپرین کی گولی سے نہیں ہوگا۔ اب معاشرے میں اچھے لوگوں کی ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے۔یہاں اچھے لوگ موجود ہیں مگر غیر منظم ہیں۔ان لوگوں کو اجتماعی عمل کا حصہ بننے کے لیے خود کو بھی منظم کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی۔ یہ کام مشکل ضرور ہے ، لیکن ناممکن نہیں۔کسی بھی معاشرے میں بہتر تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ معاشرہ زندہ ہو اور جدوجہد پر یقین رکھتا ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں