پاکستان میں ریاست اور حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ افراد یا اداروں نے قابل قدر خدمات انجام دے کر کمزور طبقات کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنایا ۔ا ن میں ایک بڑا نام عبدالستار ایدھی ہے جو ہمارا قومی سرمایہ ہیں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیزبھی اسی قافلے کے راہروہیں اور اپنی اپنی جگہ منفرد کام کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے غربت کے خاتمہ اور پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز نے علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی کو زندگی کا مشن بنارکھا ہے ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا تعلق بنیادی طور پر سول سروس سے تھا ، لیکن وہ بہت جلد اس دنیا سے باہر نکل آئے ۔ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت '' اخوت‘‘ کی بنیاد ڈالی ۔میرے سامنے ان کی کتاب'' اخوت کا سفر‘‘ موجود ہے ۔ اس کتاب میں انھوںنے اخوت کی وہ پوری کہانی لکھ دی جوان کے سفر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔اخوت کا یہ سفر معاشرے میں غربت اور افلاس کی کہانی اور اس سے نجات کی امید کا راستہ ہے ۔مارچ 2001ء میںدس ہزار روپے سے شروع ہونے والی یہ تحریک اب تک اربوں روپے ضرورت مندوں میں قرض حسنہ کے طور پر تقسیم کرچکی ہے ۔ اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح99.85فیصد ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں قرضوں کی واپسی کی شرح میں سب سے زیادہ ہے ۔ غریب مرد، عورتوں اور نوجوانوں کو یہ قرض بلاتفریق اور بلا سود دیے جاتے ہیں۔ اخوت نے اپنی تحریک کامرکز اللہ کے گھرمسجد کو بناکر لوگوں میں قرضہ تقسیم کیا۔میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جن میں مرد ، عورتیں اور نوجوان سب ہی شامل ہیں جانتا ہوں جنھوں نے '' اخوت ‘‘ کی مدد سے اپنی معاشی خود مختاری کو بہتر بنایا ۔
بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کے ادارہ گرامین بینک نے غریب لوگوں کو قرضہ فراہم کرنے میں عالمی شہرت پائی ۔یہ ادارہ چھوٹے قرضوں پر 20سے25فیصد تک سود صول کرتا تھا۔ لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب اور '' اخوت‘‘ کی کہانی گرامین اور اس قسم کے دیگر اداروں سے مختلف ہے ۔ یہ قرضہ سود سے پاک ہے ، جبکہ ان کے مقابلے میں دیگر اداروں سے جو لوگ قرضہ حاصل کرتے ہیں وہ سود کا شکار ہوکر اپنے لیے مزید معاشی آسودگی کا ساماں پیدا کرتے ہیں ۔اخوت کے کام سے متاثرپنجاب حکومت نے ایک ارب روپے کی رقم اسی ادارے کے تحت غریب لوگوں تک پہنچانے کامعاہدہ کرلیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ کہ '' اخوت ‘‘ عالمی اداروں سے کسی بھی طرح کا کوئی فنڈ نہیں لیتی۔ یہ ساری رقم پاکستان کے مخیر حضرات سمیت عام لوگوں سے جمع کرکے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کی جاتی ہے ۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ اگر کوئی فرد یا ادارہ نیک نیتی سے کام کرنا چاہے تو پاکستان کے لوگ اس کے سامنے سب کچھ ڈھیرکردیتے ہیں ۔ڈاکٹر امجد ثاقب عملی طور پرحرص، لالچ اور طمع کی جگہ ایثاراور قربانی کا جذبہ لے کر غربت کے خاتمہ کی جدوجہد کا حصہ ہیں ۔ہارورڈ یونیورسٹی جیسا بین الا اقوامی ادارہ بھی اخوت کی اہمیت کو تسلیم کرتاہے ۔مائیکرو فنانس کے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر میلکم ہارپرکے بقول اخوت نے صرف مائیکروفنانس کے مروجہ اصولوں کو ہی نہیں توڑا بلکہ حیرت ہے کہ بغیر سود کے ابھی تک کامیابی سے چل بھی رہا ہے ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز نے بھی علاج معالجہ میں خدمت کا ایسا بیڑہ اٹھایا جو واقعی قابل قدر ہے ۔
وہ اس وقت ایک ٹرسٹ ہسپتال کے سپائن اینڈ آرتھو پیڈک شعبہ کے سربراہ ہیں ۔یہ ادارہ پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی پہلی جدید علاج گاہ ہے جہاں جدید خطوط پر تجربہ کار ڈاکٹروں کی مدد سے غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا مکمل فری علاج کیا جاتا ہے ۔یہ سپائن سنٹر 114 بستروں اور 5بڑے آپریشن تھیٹروں پر مشتمل ہے ۔اس منصوبہ پر40کروڑ رقم سے زائد خرچ ہوگی ۔ پچھلے سال جو 30کروڑ روپے غریب مریضوں پر خرچ ہوئے اس میں سے صرف ڈھائی کروڑ روپے کی رقم پنجاب حکومت نے امداد کی صورت میں دی تھی ۔ جبکہ باقی تمام رقوم اخوت کی طرح پاکستان کے ان لوگوں نے دی ہے جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ۔اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والاگھرکی ہسپتال اس وقت تقریبا ًایک کروڑ روپے ماہانہ غریب مریضوں پر خرچ کرتا ہے ۔اب اس ادارے نے اپنا انڈومنٹ فنڈ بھی بنادیا ہے تاکہ اس ادارے کو زیادہ مستحکم اور مضبوط بنیاد پر چلایا جاسکے۔
پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز کے بقول ہر سال 40سے 50ہزار افرادپاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے مرض کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس مرض کی وجوہ میں ٹی بی، حادثات اور دہشت گردی شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 30لاکھ سے زیادہ ٹی بی کے مریض ہیں ۔ ہر سال اس تعداد میں ایک لاکھ مریضوں کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ٹی بی کے بیشتر مریضوں کو ریڑھ کی ہڈی کی سرجری درکار ہوتی ہے ۔ سوئٹزر لینڈ میں قائم سپائن سرجنوں کی سب سے بڑی عالمی تنظیم اے او سپائن انٹرنیشنل نے پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیزکو سرجری کے شعبہ میں جدید مہارتوں اور خدمات کے باعث اپنی فیکلٹی کا اہم حصہ بنارکھا ہے ، جو پاکستان کے لیے باعث اعزاز ہے ۔
ڈاکٹر عامر عزیز اور ٹرسٹ ہسپتال اس وقت سپائن کے سرجنوں کی تربیت سے بھی منسلک ہے ۔ بہت سے ممالک کے لوگ یہاں سے عملی تربیت حاصل کرتے ہیں ، جن میں مڈل ایسٹ کے ممالک پیش پیش ہیں ۔ ڈاکٹر عامر عزیز نے بہت دکھی انداز میں بتایا کہ ہماری ریاست اور حکومت کی ترجیحات میں صحت اور علاج ومعالجہ کا شعبہ بری طرح نظر انداز ہوا ہے ۔ان کے بقول نادار اور غریب لوگوں کو ریڑھ کی ہڈی کاعلاج محض ایک خواب لگتا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر عامر عزیز پرعزم بھی ہیں اور باہمت بھی ۔
ہمیں اس سفر میں ان دونوں عظیم شخصیات ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر عامر عزیز کا دامن تھامنا ہوگا ۔ ہمیں آگے بڑھ کر خود بھی اور دوسروں کو بھی اس تحریک کا حصہ بنانا ہوگا۔ کیونکہ ان اداروں کو ہماری اور ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ہمارا عملی قدم ہمیں موقع دے گا کہ ہم اللہ او راس کی مخلوق کے سامنے بھی سرخرو ہوسکیں ۔بقول شاعر ؎
ایک حلقہ میں ہوں اس کا دوسرا حلقہ ہے تو
دور تک پھیلا ہواہے سلسلہ زنجیر کا