"SAC" (space) message & send to 7575

طلبہ تنظیموں کا مقدمہ

کیا طلبہ تنظیموں پرپابندی مسئلہ کا حل ہے ؟ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ طلبہ تنظیموں کے کردار کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے ماحول میں بگاڑ اور تشدد کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔طلبہ تنظیموں کے خلاف یہ نقطہ نظر کوئی نیا نہیں ۔ اسی نقطہ نظر کو بنیاد بناکر ریاست، حکومت اور تعلیمی اداروں کے سربراہان نے طلبہ کو اپنی تنظیموں کو بنانے ، فعال کرنے اور ان کے انتخابات کے تسلسل کو روک کر ان کے جمہوری حق کو سلب کررکھا ہے ۔ طلبہ تنظیموں کے مخالفین ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ طلبہ وطالبات کو اپنی توجہ صرف اور صرف تعلیم تک ہی محدود رکھنی چاہیے۔ انھیں سیاست سے مکمل دور رہناچاہیے ۔اس دلیل کے ذریعے نوجوانوں کو ریاستی و حکومتی معاملات سے الگ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ایک طرف نوجوانوں کو ترقی کا درس دیا جاتا ہے تو دوسری طرف سیاست کے خلاف بڑی شدت سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ نوجوان نہ تو اپنی حالت بدلنے کے قابل ہیں اور نہ ہی مہذب معاشرے کی تشکیل میں عملی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جو لوگ طلبہ وطالبات کو سیاسی عمل سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ تعلیم اور سیاست کے تعلق سے نا آشنا ہیں ۔ سیاست کے بغیر تبدیلی آ نہیں سکتی جبکہ تعلیم کا دوسرا نام تبدیلی ہے جو خالصتاً سیاسی عمل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ہمارے تعلیمی مسائل کا حل بھی اچھی طرز حکمرانی اور بہتر سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ 
ملک میں تعلیم کا جو بجٹ ہے وہ ریاست اور حکومت کی تعلیمی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے ۔طبقاتی تعلیم، تعلیمی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم،تعلیمی معیار کا بگاڑ جیسے مسائل کافی سنگین ہو چکے ہیں ۔اس لیے اگر طلبہ و طالبات سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو یہ تعلیمی نظام کے حوالے سے مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس حق سے طلبہ کودور رکھنا خود جمہوری عمل کی نفی ہوگا۔ایک طرف طلبہ تنظیموں کے مخالفین تحقیق کے لیے سوچ کی آزادی اور آزادانہ ماحول کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف طلبہ تنظیموں کے سیاسی کردارکی مخالفت بھی کرتے ہیں ۔حالانکہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں ۔ 
جنرل ضیا الحق نے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا کرجو غلطی کی وہ ابھی تک کی جارہی ہے ۔ موجودہ جمہوری حکومت بھی طلبہ کو ان کے بنیادی حقوق یا تنظیم سازی کا حق دینے کی حامی نہیں ۔دراصل ریاست اور حکومت ہمیشہ سے نوجوان طبقہ اور بالخصوص طلبہ تنظیموں سے خائف رہتی ہے ۔ ان کے بقول طلبہ تنظیموں کا فعال کردار تین حوالوں سے ریاست اور حکومت کے مفادات کے برعکس ہے ۔ اول‘ اس طرز کی طلبہ تنظیمیں ریاست اور حکمرانوں کے خلاف طلبہ و طالبات کو کھڑاکرتی ہیں۔ دوئم‘ یہ طلبہ تنظیمیں اور ان میں شامل طلبہ
وطالبات سیاسی جماعتوں کی طاقت اور مضبوطی کی ضامن بنتی ہیں ۔ سوئم‘ یہ طلبہ تنظیمیں بالادست سیاسی طبقات کے مقابل ایک متبادل قیادت کو سامنے لاتی ہیں۔ان ہی خطرات کو بنیاد بنا کر حکومت‘ طلبہ کے سیاسی کردار کے خاتمے میں کوشاں رہتی ہے ۔معاشرے میں جواحساس محرومی یا خوفنا ک حد تک طبقاتی تقسیم موجود ہے‘ اس کی ذمہ داری ریاست اور حکمرانوں کے اپنے منفی کردار کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔
پاکستان میں حکمرانی کا بڑا حصہ فوجی ادوار میں گزرا ہے۔جمہوریت کے حصول اور جنرل ایوب ، جنرل ضیا اورجنرل مشرف کے آمرانہ نظام کے خلاف لڑی گئی جنگ میں طلبہ سیاست کا اہم کردار ہے ۔سیاست میں جو بڑے نام آج غالب ہیں وہ سب نام عملی طور پر طلبہ سیاست کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ طلبہ سیاست سے ابھرنے والی سیاسی قیادت جاگیر داروں ، سرمایہ داروں اور غیر سیاسی سوچ رکھنے والی سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں اپنی صلاحیتیں ہر سطح پر منواچکی ہے۔ جس طرح بلدیاتی ادارے جمہوریت میں نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں، اسی طرح طلبہ سیاست بھی جمہوریت کی نرسریوں پر مبنی ادارے ہیں۔ یہ ادارے قومی ، صوبائی اور مقامی سطح پر موجود سیاسی قیادتوں کے خلا کو پورا کرکے جمہوری اور سیاسی عمل کو مضبوط بناتے ہیں ۔
طلبہ تنظیموں کے خلاف تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ایک عجیب منطق رکھتی ہے۔ اس کے بقول طلبہ تنظیموں کی بحالی سے تعلیم کا عمل متاثر ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہماری یونیورسٹیاں ایسا کوئی ثبوت دے سکتی ہیں کہ ان تنظیموں پر پابندی کے بعد ملک کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیمی معیار کی شاندار مثالیں قائم ہوئی ہوں ، تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔تعلیمی ماہرین کی وہ تمام تحقیقی رپورٹس اور مقالہ جات موجود ہیں جو ہائر ایجوکیشن اور یونیورسٹی کی تعلیم میں مسلسل گراوٹ کی کہانی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں جو کچھ اداروں کے سربراہان ، انتظامی افسران اور اساتذہ کررہے ہیں اس پر بھی سنجیدہ حلقوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ سارا قصور طلبہ تنظیموں کا نہیں بلکہ خود تعلیمی اداروں کے سربراہان کی تعلیم
اور تحقیق پرترجیحات کم اور سیاست سمیت اداروں پر بالادستی اور وسائل کی لوٹ مار ، اقربا پروری ، بدعنوانی کے گرد زیادہ نظر آتی ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ تنظیموں سے ماضی اور حال دونوں میں غلطیاں ہوئیں ہیں ۔ان شعوری اور لاشعوری غلطیوں کا اعتراف طلبہ تنظیمو ں کو ضرور کرنا چاہیے۔کیونکہ غلطیوں کو تسلیم کرنا اور اس کے نتیجے سے اصلا ح و احوال کا راستہ تلاش کرنے والے ہی اپنے مقاصد میں سرخرو ہوتے ہیں ۔ بعض سیاسی جماعتوں نے ان طلبہ تنظیموں کی اپنی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنے کی بجائے ان پر اپنے سیاسی فیصلے مسلط کیے۔طلبہ تنظیموں میں جو اسلحہ اور تشدد آیا اس میں بھی بعض طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کا بڑا عمل دخل ہے ۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ طلبہ کے سلوک کے بعض پہلو ایسے بھی سامنے آتے ہیں جو قابل گرفت ہیں ۔ اس طرح کے اقدامات کی کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔لیکن یہ سب کچھ یکطرفہ نہیں ۔ حکومت کو طلبہ تنظیموں سے خائف ہونے کی بجائے ان میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے اصلاح و احوال پر توجہ دینی چاہیے۔اسی طرح طلبہ تنظیمیں سیاسی و ریاستی معاملات پر بھی نظر رکھیں، لیکن سب سے پہلے تعلیم کو اولیت دیں۔ طلبہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے تعاون سے ہی بہترین تعلیمی ماحول تشکیل پا سکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں