"SAC" (space) message & send to 7575

بقا کی جنگ

پاکستان کی اہم سیاسی جماعت پیپلز پارٹی عملی طور پر اپنی بقا کی جنگ لڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کووفاق کی جماعت سمجھا جاتا ہے ۔لیکن اب اس کی سیاست کا دائرہ کارسندھ تک محدود ہوتا نظر آ رہا ہے ۔علمی مباحث میں یہ بحث جاری ہے کہ پیپلز پارٹی کا نظریاتی احیا کیا اب دوبارہ ممکن ہوگا؟پیپلز پارٹی کومجموعی طورپر چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : اول‘ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ۔ دوئم‘ بے نظیر بھٹو ۔ سوئم‘ آصف علی زرداری اور چہارم‘ بلاول بھٹو زرداری ۔
گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی پربلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی اور بھٹو کے سیاسی فلسفہ کے ساتھ اپنی نظریاتی کمٹمنٹ، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے مضبوط عزم کا اظہار کیا ہے ۔پیپلز پارٹی کے بعض حامی کارکن، راہنما اور دانشور خیال کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری میں ایک لیڈر کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔
بلاول اس وقت عملی طور پر سیاست میں آ رہے ہیں جب پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کے درمیان فاصلے کافی بڑھ گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی جو ایک زمانے میں مڈل کلاس اور غریب طبقہ کی اصل طاقت سمجھی جاتی تھی ، اب اس کی یہ طاقت عملی طور پر ختم یا کمزور ہوکر رہ 
گئی ہے ۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر کبھی بھی اپنی سیاسی رائے تبدیل نہیں کرتا۔ اس کے حامی دانشور دلیل دیتے تھے کہ پارٹی کا ووٹ بینک اگر بڑھا نہیں تو بھی موجودہ ووٹ بدستور اپنی جگہ پر قائم ہے۔لیکن اب ان کے حامی ساتھیوں، دانشوروں او رقیادت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا ووٹ بینک آہستہ آہستہ ٹوٹ کر دیگر پارٹیوں میں بکھر رہا ہے ۔اس کا عملی ثبوت انتخابات کے نتائج ہیں ۔شہر ی سیاست میں اب نواز شریف اور عمران خان نے ڈیرہ جما رکھا ہے ۔ جبکہ دیہی سیاست اب بھی بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کے درمیان کھڑی نظر آتی ہے ۔ 
پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کی ناکامیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو پیپلز پارٹی کی قیادت ماضی میں بھی کرتی رہی ہے۔ اب بھی اس کی سیاست اسی حکمت عملی کے اردگرد گھومتی ہے ۔گڑھی خدا بخش میں بھی بلاول بھٹو کا انداز جذباتی تھا۔ وہ ماضی کا ماتم کرکے پیپلز پارٹی کے لوگوں میں نئی سیاسی حرارت پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کاپیغام تھا کہ ''ہم ناکام ہوئے ہیں اور نہ ہی اپنے قائد بھٹو کے سیاسی فلسفہ سے جدا ہوئے ہیں‘‘ وہ اس ناکامی کی ذمہ داری پنجابی اسٹیبلشمنٹ ، سیاسی مخالفین اور میڈیا کے مائنڈ سیٹ پر ڈالتے ہیں جو پیپلز پارٹی کے بارے میں سیاسی تعصبات اور ان کے مخالفین کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔
اسے سیاسی جماعتوں کا المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے روایتی سیاسی حکمت عملیوںسے کام لے کر نئے امکانات پیدا کرنے کی خواہش مند ہیں۔ عمومی طور پر سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ جو جماعتیں ماضی کی غلطیاں دہرانے پر مصر ہوتی ہیں‘ ان کا مستقبل روشن نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی ایک زمانے تک اہل علم ، سیاسی اشرافیہ ، مزدور، خواتین ، کسان ، اقلیتوں ،نوجوانوں میں بہت مقبول تھی ‘ اب خاصی کمزور ہو چکی ہے او راس امر کا ادراک پارٹی قیادت کو کرلینا چاہیے۔ 
بلاول بھٹو زرداری طالبان کے خلاف ہمیشہ سے واضح موقف رکھتے ہیں۔ گڑھی خدا بخش میں انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں جو عوام کا خون بہاتے ہیں ۔ بلاول کی یادداشت کے لیے عرض کر دوں کہ ان ہی کی جماعت نے اے پی سی میں اس معاہدے کی حمایت کی ہے جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔اس سے قبل بھی دہشت گردی کے حوالہ سے پارلیمنٹ کی جو بیشتر قراردادیں منظور ہوئیں اس میں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی شامل تھی۔ یہ اچھی بات ہے کہ وہ طالبان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے بقول انھوں نے ملک کی سلامتی کے لیے زہر کا پیالہ اٹھالیا ہے ۔لیکن اس لڑائی کے لیے انھیں جس طرح کی ایک مضبوط پیپلز پارٹی اور تنظیم چاہیے، وہ موجود نہیں ۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے سامنے اصل چیلنج اپنی سیاسی بقا کا ہے ۔بلاول بھٹو زرداری تو طالبان اور دہشت گردوں کے خوف سے آزادانہ بنیادوں پر انتخابی مہم بھی نہیں چلاسکے ۔ابھی بھی ان کی سیاست کا مرکز لاڑکانہ ہے جہاں سے وہ قومی سطح کی سیاست کے لیے باہر نکلنے سے خوف زدہ ہیں ۔ 
بلاول کا یہ سمجھنا کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر بھٹو کی طرح وہ اندھا دھند ووٹ سمیٹ لیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ بھٹو کے نعرے لگانے سے اگر بات بنتی ہوتی تو پیپلزپارٹی ہر الیکشن جیت لیتی۔ اب ایسا ممکن نہیں ۔ سابق دور میں ن لیگ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس مرتبہ خاموش مفاہمت اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار پیپلزپارٹی ادا کرتی نظر آتی ہے۔ یہ حکمت عملی پارٹی کو مزید نقصان کا شکار کرے گی۔قائدین کو سمجھنا ہو گا کہ جو نقصان پارٹی اپنے آپ کو پہنچارہی ہے اس کا ازالہ تو پارٹی نے خود ہی کرنا ہے۔ پارٹی کی موجودہ روایتی سیاست نے عوام بالخصوص نوجوانوں کو مایوسی سے دوچار کر دیا ہے۔ انہیں اپنے قائدین سے بہت زیادہ توقعات نہیں رہیں۔ بلاول بھٹو کو ان خطوط پر سوچنا ہو گا اور پارٹی کے احیا کے لیے روایتی سیاست سے ہٹ کر ہر قدم احتیاط سے اٹھانا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں