قومی بحران محاذ آرائی سے حل نہیں ہوا کرتے بلکہ اس کے لیے بڑی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ مفاہمت سے مراد وہ نہیں جو آج بڑی جماعتوں نے اقتدارکی بند ربانٹ کے کھیل میں اپنائی ہوئی ہے ۔ اس طرز کی مفاہمت جماعتوں کے درمیان اقتدار کے کھیل کو تو فائدہ دے سکتی ہے ، لیکن قومی اور عوامی مفادات پس پشت چلے جاتے ہیں ۔محاذ آرائی کی سیاست عمومی طور پر تین صورتوں میں سامنے آتی ہے ۔ اول، سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کے درمیان مختلف معاملات پر بہت زیادہ فاصلے اور تلخیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان اختلافات کو بنیاد بناکر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر مبنی سیاست کو تقویت دیتی ہیں۔ ماضی میں یہ سیاست اینٹی پیپلز پارٹی اور پرو پیپلز پارٹی کی صورت میں موجود رہی ہے۔دوئم، کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی واضح سیاسی ایجنڈا یا اہداف نہیں ہوتاتو وہ محاذ آرائی اور جذباتی سیاست کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کو تقویت دیتی ہیں ۔سوئم جب اقتدار میں شامل جماعتیں اپنے یا عوامی مفادات کی تکمیل میں ناکام ہوجاتی ہیںتو پھر وہ محاذ آرائی کی سیاست کا راستہ اختیار کرتی ہیں ۔
سیاسی اشرافیہ اور سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہم شدید بحرانی کیفیت سے گزررہے ہیں ۔دہشت گردی، انتہا پسندی ، امن وامان ، غربت، بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے بحرانوں میں حکمرانی کا بحران اور زیادہ سنگین ہوگیا ہے ۔حکومتی سطح پر بھی یہ اعتراف موجود ہے کہ مسائل کافی گمبھیر ہیں اور ان کے حل کے لیے ایک مربوط جامع پالیسی کی ضرورت ہے ۔
ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کی ریاست ، حکومت، سیاسی جماعتوں ، قیادتوں اور اشرافیہ کے بڑے طبقہ کو ایک واضح سمت کے ساتھ کچھ بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کرنا چاہیے تھا ، سب تقسیم نظر آتے ہیں ۔حکومت کے سامنے حکمرانی کا بحران انہیں سیاسی مشکل میں ڈالے ہوئے ہے ۔ یہ بحران محض مرکزی حکومت کا نہیں ،بلکہ چاروں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ حکومتوں پر چھ ماہ کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر تنقید کرنا قبل ازوقت ہے ۔
ایک معاملہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ ہے ۔ بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں اور کوئی ان کے ساتھ نہیں۔ لیکن ایسا نہیں،چوہدری شجاعت حسین کی حمایت کے بعد ایم کیو ایم بھی کھل کر جنرل مشرف کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہے ۔چوہدری شجاعت مصر ہیں کہ جنرل مشرف نے 3نومبر کی ایمرجنسی پر تمام فریقوں سے مشاورت کی تھی اور اگر مقدمہ چلانا ہے تو ان پر بھی چلایا جائے جنھوں نے اس فیصلہ کی حمایت کی تھی ۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ اگر جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلانا ہے تو پھر سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی اس مقدمہ کا حصہ بنایا جائے ۔
سابق صدر زرداری نے گڑھی خدا بخش میں اور بلاول بھٹو نے ٹویٹ پر جنرل مشرف اور فوج کے بارے میں جو لب ولہجہ اختیار کیا اسے بھی بعض حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا ۔یہ نقطہ بھی زیر بحث ہے کہ ہماری عدلیہ محض ایک فرد کو بنیاد بناکر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتی ہے ، جبکہ کچھ اور لوگ بھی دارو گیر کے زمرے میں آتے ہیں۔مقدمے میں بیرونی مداخلت کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔جنرل مشرف اگر محفوظ راستہ کی بنیاد پر عالمی قوتوں کی مدد سے باہر چلے گئے جس کا غالب امکان ہے تو اس کا عملی نتیجہ حکومت کی مخالفت کی صورت میں سامنے آئے گا۔حکومت مخالف جماعتیں حکومت کے لیے نئی محاذ آرائی پیدا کریں گی اور تاثر دیا جائے گا کہ حکومت بیرونی دبائو اور اس کے نتیجے میں ڈیل کا شکار ہوئی۔
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ حکومت اور فوج کے معاملات میں کافی ہم آہنگی ہے ۔ممکن ہے یہ بات سچ ہو، لیکن جب مقدمہ آگے بڑھے گا تو اس کا ردعمل بعض حلقوں میں ضرور آئے گا۔اس لیے پنڈورا بکس کے کھولنے کے معاملے میں حکومت کو بہت احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے ، وگرنہ قومی مسائل حل کی بجائے اور زیادہ تلخیوں اور بگاڑ کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
اسی طرح داخلی محاذ پر ایک نئی صف بندی خیبر پختونخوا میں ہورہی ہے ۔ وہاں آفتاب شیرپائو کی جماعت کے وزرا کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کرپشن کی بنیاد پر برطرف کردیا ہے۔ اب آفتاب شیر پائو، مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی صوبائی حکومت کی تبدیلی پر متفق ہیں ۔ یہ جماعتیں وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت کی منتظر ہیں او راس کے بعد تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بنانے کا کھیل شروع ہوگا۔بظاہر وزیر اعظم نواز شریف اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے ، لیکن مولانا فضل الرحمن سمیت جو دوست ان کو اس کھیل کی حمایت کا مشورہ دے رہے ہیں وہ حکومت کے لیے خیبر پختونخوا میں نیا بحران پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سندھ کی تقسیم سمیت نئے ملک کی حمایت میں بیان دے کر سندھ کی شہری اور دیہی آبادی میں نئی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے ۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ میں لسانی بنیادوں پر سندھی نیشنلزم کی سیاست کرنے کی کوشش کررہی ہیں، اس خطرناک رجحان سے گریز کیا جانا چاہیے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی حکومت پر دبائو بڑھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سب سے بڑا امتحان حکومت کا ہے ۔ وہ محاذ آرائی اور قومی مسائل کے حل کی کوششوں میں سے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے ۔اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ کا مرکز حکمرانی کے بحران کے حل پر ہونا چاہیے۔ حکومت کو نئے سنگین مسائل پیدا کرنے کی بجائے موجود مسائل کے حل پر توجہ دینا ہوگی۔ لوگ اپنے مسائل کا حل جلد از جلد چاہتے ہیں ۔