مجھے اس بات کا کافی حد تک احساس ہے کہ ملٹری ڈیموکریسی کی اصطلاح کئی نئی بحثوں کو جنم دے سکتی ہے، سب و شتم کے کئی نئے پہاڑ گرائے جا سکتے ہیں ، قسم قسم کی الزام تراشیاں خارج از امکان نہیں۔ بالکل اُسی طرح جس طرح کل تک جنرل پرویز مشرف کی پھانسی کی انتظار میں بیٹھا ہوا ایک سے ایک طبقہ آج سالہا سال کے بعد چار و ناچار یہ کہنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے کہ جی ہاں پرویز مشرف بطور سیاست دان اور حکمران بہت سے دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر تھے۔حالانکہ میری پختہ رائے میںجنرل پرویز مشرف پیدائشی طور پر قیادت کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔
مجھے پرویز مشرف کی مخالفت کو حمایت میں بدلتے دیکھ کر خوشی تو ضرور ہوتی ہے لیکن کئی دانشوروں کی دوربینی اور دور اندیشی سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے ہم جیسے کم علم سیاسی کارکنوں کو کئی امور کی بروقت اور درست سمجھ عطا کر رکھی ہے۔
اگلی اقساط میں اس موضوع کے ایک مختلف پہلو پر الگ سے وضاحت کی جائے گی کہ فوجی حکمرانوں کی حمایت اوربطور ادارہ فوج کی حمایت کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور اُس کی قیادت کا سارا ماضی عملاً اس دعوے کا کافی ثبوت ہے ۔خود پرویز مشرف کے دور میں 2001ء کے آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں ممبران اسمبلی کی واضح اکثریت کے باوجود مجھے صرف اس لیے حکومت سے باہر رہنا پڑا کہ میں نے مشکل ترین حالات میں‘ جب نواز لیگ سارے پاکستان میں کوئی قابل ذکر جلسہ یا میٹنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی تواُن حالات میں محترمہ بیگم کلثوم نواز نیلا بٹ میں ہماری مہمان تھیں اور انھیں آزاد کشمیر کا کامیاب اور بھرپور دورہ کرایا گیا جس پر مجھے آج بھی کوئی افسوس نہیں ۔ اُس دور کی لیگی مشکلات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلثوم نواز صاحبہ کے ساتھ پورے پاکستان سے جانے والی گاڑیوں کی کل تعداد دو تھی ۔ قائداعظم کے مشن سے وابستہ ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے میں آج بھی اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی غلطیوں کی سزا مسلم لیگ کو نہیں دی جانی چاہیے۔ میرے نزدیک قائداعظم کا سبز ہلالی پرچم سارے پاکستان پر یکساں طور پر لہرانا چاہیے اور مسلم لیگ بطور جماعت سب سے زیادہ اس کی مستحق ہے ۔ ہمارے لیڈرمجاہد اوّل سردار محمد عبدالقیوم خان سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ سیاسی ، جماعتی اور شخصی اختلافات اور ناراضگیوں کوکبھی بھی قومی امور اور ذمہ داریوں کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح حکومت اور ریاست کو ہمیشہ الگ الگ رکھتے ہوئے کسی بھی حکومت کی غلطیوں کی سزا ریاست کو نہیں دی جانی چاہیے۔
ملک کے لیے نئے نظام کا تعارف تو یوں بھی پیچیدہ معاملہ ہو سکتا ہے لیکن مجھے تو کئی عمومی پہل قدمیوں (Initiatives)پر بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنے کا بہت تلخ تجربہ ہو چکا ہے ۔ آج سے نو سال قبل بطور وزیر اعظم آزاد کشمیر جب میں نے ٹریڈ اینڈ ٹورازم ٹنلز (Trade & Tourism Tunnels)، مصنوعی ٹنلز (Artificial Tunnels) ،سولر انرجی، سر سبز و ہنر مند کشمیر (Green & Skilled Kashmir)پروگرام ، AJKRSP، مذہبی سیاحت (Religious Tourism)، کیبل ٹورازم (Cable Tourism)،آزاد کشمیر بنک ، ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت /منصوبہ بندی اور کاربن کریڈٹس پروگرام /کاربن سیکویسٹریشن (Carbon Sequesteration)اور نوجوانوں کو برسر روزگار لانے کے لیے Positive engagementکے چند منصوبوں کا آغاز کیا تو اُس پر بڑے بڑے قدآور سیاست کاروں کا ردعمل مذاق اور دُشنام طرازی کی صورت میںسامنے آیا جو آج بھی قومی اور ریاستی اخبارات کے صفحات پر محفوظ ہے ۔ بدقسمتی سے اکثر قائدین Status Quoکے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اُن کے نزدیک کسی بھی نئے راستے کی نشاندہی جرم دکھائی دیتی ہے ۔بقول علامہ اقبال :۔
بے یقیں را قوتِ تخلیق نیست
بے یقیں را لذتِ تحقیق نیست
اسی طرح اس نظام کے تعارف سے کئی نئی بحثوں کا جنم لینا فطری بات ہے۔ جہاں تک میری سوچ بلکہ تحریروں کا بھی تعلق ہے تو میں اس موضوع پر 90ء کی دہائی سے اخباری بیانات ، انٹرویوزاور قومی روزناموں میں مضامین کی صورت میںاپنے ان خیالات کا اظہار کرتا چلا آیا ہوں۔ پاکستان دو سو سالہ تحریک اور قربانیوں کا نتیجہ ہے جبکہ ملک میں موجود نظام اور قوانین کی تیاری چند جماعتیں چند ووٹوں کی برتری کی بنیاد پر چنددنوں یا ہفتوں میں مل بیٹھ کرکرتی ہیں۔کسی بھی معروف سیاسی /انتخابی جماعت کے اندر ملک کے اہم مسائل اور سنجیدہ امور پر کام کرنے والا کوئی بھی ہمہ وقتی Think Tankیا ادارہ میرے علم میں نہیں ۔کسی بھی آئین اور قانون سازی کی تفصیلات کا موجود ریکارڈ دیکھنے سے اس عمل میں شریک نمائندوں کی ایوان میں موجودگی کی تعداداور حاضری سے دلچسپی اور شرکت کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
مزید وقت ضائع کیے بغیر یہ فیصلہ کرنا ہو گاکہ ہم نے نظام اور قوانین کو ملک کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہے یا اس کے برعکس۔ میری گزارش ہو گی کہ سول ملـٹری ڈیموکریسی Civil Millitary Governanceکے نام سے خوفزدہ ہونے یا گھبرانے کی بجائے اس نظام کی ضرورت کوستر سالہ تجربے ، موجودہ حالات اور مستقبل کے اندرونی اور گرد و پیش کے خطرات کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جانا چاہیے ۔خوفزدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پولیٹیکل سائنس کی کتب میںیہ اصطلاح موجو د نہیں ہے؛ لہٰذا لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے ہاںکئی متضاد اور متصادم چیزیں عملاًتو موجود ہیں لیکن اصطلاحوں کے باہمی تصادم کی وجہ سے صحیح ادراک حاصل نہیں ہو رہا۔ اس نظام کے تعارف کا بنیادی مقصد سیاسی نظام کا تسلسل اور مارشل لاء کی روک تھام ہے ۔ایسے وقت میں جب بھارت کے فوجی بجٹ میں مسلسل اضافہ اور اُس کے توسیع پسندانہ عزائم بڑھتے چلے جا رہے ہیں پاک افواج کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے زیادہ عرصہ تک مسلسل دور رکھنا دانشمندی کے خلاف ہے؛ جبکہ فوج کی حکومتی امور سے لا تعلقی کا تصور بھی ان حالات میں تو عملاًمحال ہو چکا ہے ۔ میری تجویز ہے کہ آنے والے وقت میں ایف ڈبلیواو(FWO)، این ایل سی(NLC)، ایس سی او (SCO)اور ایرا(ERRA)کی طرز پر کسی ایک نئے مستقل ادارے کے قیام کا بھی جائزہ لینا چاہیے جو ہمہ وقت ان ذمہ داریوں کو نبھا سکے اور ساتھ ہیNDUکا دائرہ وسیع کر کے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میںاُس کے کیمپس قائم کر کے سیاستدانوں اور انتظامیہ کی استعدادمیں اضافے Capacity Building کا فریضہ ادا کر سکے۔
پاکستان کی حد تک‘ تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ کوئی سیاسی حکومت‘ فوج کی معاونت کے بغیردیر تک تنہاکامیابی سے نہیں چل سکتی اور نہ ہی کوئی فوجی حکومت زیادہ دیر تک سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کوحکومتی نظام سے باہررکھنے کی متحمل ہو سکتی ہے ۔اگر یہ درست ہے تو پھر سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لیے جلد اقدامات کیے جانے چاہئیں۔میری رائے میں سیاسی اور دفاعی اداروں کا قریبی تال میل اور بھرپور باہمی اعتماد قائم کیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے بعض سیاست کارعوامی مینڈیٹ کو امرت دھارا یعنی ہر مرض کا علاج سمجھتے ہیں جبکہ خود انتخابی عمل مشکوک، ووٹر لسٹیں جعلی، انتخابی عملہ جانبدار ، انتخاب کا مقصد ذاتی منفعت اور شوق حکمرانی،شخصی اور جماعتی اور شخصی بالا دستی ہو تو قومی مقاصد کا باوقار حصول کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اگر یہ سارا عمل پوری طرح شفاف اور قابل قبول ہو بھی اور مقاصد بھی اچھے ہوں تب بھی مینڈیٹ مد مقابل کے مقابلے میں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن کسی بھی صورت علم ، عقل ، سمجھ ، صلاحیت اور تجربے کا متبادل نہیں ہو سکتاجبکہ ریاست کوچلانے کے تقاضے یکسر مختلف ہیں۔ خود لفظ مینڈیٹ کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا جاتا ۔ اصولی بلکہ عملی طور پر دفاع ، عدلیہ اور دوسرے اہم اداروں کو مینڈیٹ سے باہر رکھ کر یہ اصطلاح خوداپنا اصل مفہوم ہی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ (ان شاء اللہ باقی آئندہ جمعہ)