پاکستان کو تنہا سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا…(پانچوا ں حصہ)

کسی بھی ملک کے مستحکم نظام کے لیے چند باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک یہ کہ ادارے بہتر حالت میں موجود ہوں اور اپنے فرائض ادا کر رہے ہوں اور دوسرا یہ کہ اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور اعتماد کی فضا موجود ہو اور اس سارے عمل کے پیچھے سیاسی قیادت کی خواہش‘ دلچسپی اور کمٹمنٹ موجود ہو ۔ اس بات سے تو اصولی طور پر کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ ریاست کے اداروں میں باہمی تال میل ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کسی مستقل ادارے کی عدم موجودگی میں یہ کام کیسے ممکن ہے ؟ ماضی میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے تصور پرکچھ نہ کچھ کام تو ہوالیکن یہ تصور کوئی باضابطہ حتمی شکل اختیار نہ کر سکا یا مخصوص سیاسی عزائم اور محدود سوچ کے حامل لوگوں نے اس سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیا ۔ اُس کا غالباً ایک سبب یہ بھی ہے کہ روز اوّل سے اداروں پر یقین نہ رکھنے کے رویے سے مضبوط قومی اداروں سے خوفزدگی کا تاثر مضبوط ہو گیا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بطور مملکت پاکستان اور اُس کے قائدین کے قد کاٹھ میں وہ مناسبت نہیں جو مطلوبہ قومی اہداف پورے کر سکے۔ اس بات پر بھی مجھے پوری طرح شرح صدر اور اطمینان قلب ہے کہ سول گورننس (Civil Governance)مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جس کے متبادل کی تلاش ناگزیر ہے ۔ اس لیے طویل سوچ و بچار مطالعے اور تجربے کے بعد میری رائے میں چندبنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں جن میں انتظامی اصلاحات اور انتظامیہ ، انتخابی ادارہ اور انتخابی اصلاحات ، عدلیہ میں عدالتی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ یا بعد ان تمام اداروں کے باوقار تال میل اور باہمی تعاون کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی سلامتی کونسل(National Security Council) کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
ایک مستحکم انتظامیہ اور نظم و نسق کو موثر بنانے اور صوبائی تعصبات کو کم کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں نئے انتظامی یونٹس (Administrative Units)کے قیام کا جائزہ لیا جائے ۔ صوبائی اسمبلیوں کی تعداد میں کوئی زیادہ اضافہ کیے بغیر دو دو تین تین ڈویژنز پر مشتمل نئے انتظامی صوبوں (Administrative Provinces) کا قیام پہلے مرحلے میں اس ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔
ہماری انتظامیہ /سول بیورو کریسی مسلح افواج کے بعد دوسرا ایسا ادارہ ہے جو بے پناہ سیاسی دست برُد اور دخل اندازیوں کے باوجود کسی نہ کسی حد تک اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ امر بھی فوری طور پر توجہ کا متقاضی ہے کہ انتظامیہ کو سیاسی اثرورسوخ سے جہاں تک ممکن ہو محفوظ کیا جائے ۔ بھرتیوں ، تقرریوں ، ترقیوں اور تبادلہ جات میں میرٹ، کوٹہ، دیہی اور شہری تناسب و اہلیت و کارکردگی اور قابلیت کو بنیاد بنا کر ایک اچھی انتظامیہ دستیاب ہو سکتی ہے ۔ سرکاری محکمہ جات بطور خاص پولیس ، تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں منتخب نمائندگان کا کوٹہ بے شمار انتظامی اور قانونی خرابیوں کو جنم دیتا ہے جسے میری رائے میں سو فیصد ختم کیا جانا چاہیے ۔
سرکاری ملازمین کو پڑھنے لکھنے اور تربیت حاصل کرنے کے بعد کسی بھی سیاسی خوف سے آزاد ہو کر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ سرکاری اہلکاروں کو جماعتوں اور حکومتوں کے بجائے ریاست کے ملازمین کے طور پر قبول کیا جا نا چاہیے۔ جن افسران کا زیادہ وقت سیاسی سرپرستی ، پناہ اور تحفظ تلاش کرتے گزرے گا وہ کس طرح اپنے منصب کے ساتھ انصاف کر سکیں گے ۔
جو انتظامیہ مسلسل ذہنی طو ر پرعدم تحفظ کا شکار رہے وہ کوئی قابل ذکر خدمت سر انجا م نہیں دے سکتی ۔ دو بار منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے میرا تجربہ ہے کہ ہماری انتظامیہ میں بہترین صلاحیتوں کے مالک افراد موجود ہیں جنہیں اعتماد کی فضا میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ بہت قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاسی ، جماعتی ، قبیلائی اور علاقائی پسند و نا پسند کے تقاضے کئی بار صلاحیت اور اہلیت سے بُری طرح متصادم ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت اور انتظامیہ دیر تک باہمی اعتماد قائم نہیں رکھ سکتی۔ عام طور پر حکومتوں بلکہ حکمرانوں کی غالب اکثریت تابعداری (Obedience)کوبہترین معیار سمجھتی ہے جبکہ تابعداری سے زیادہ اچھی انتظامیہ کا تعاون (Cooperation)ضروری ہوتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اختلاف رائے کا اظہارتعاون کرنے والے کی صلاحیت کا حصہ ہوتا ہے جسے برداشت کرنے کی حکمران میں صلاحیت ہونی چاہیے ورنہ ہر جائز و نا جائز کام میں ہاں میں ہاں ملانے والے بالآخر حکمرانوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتے ہیں ۔ اچھی انتظامیہ کی مثال ایک تازی گھوڑے کی سی ہے ۔ اگر سوار اچھا ہے تو ہفتوں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں کٹ سکتا ہے بصورت دیگر نالائق سوار کاسواری کے ہاتھوں گھسیٹا جانایقینی امر ہے۔ اس بات کا دارو مدار اب سوار پر ہے کہ وہ سواری کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے یا گھوڑے کے بجائے کسی گدھے یا ٹٹو کو ترجیح دیتا ہے ۔ آزاد کشمیر چھوٹا سا انتظامی یونٹ ہے جس پر گفتگو ایک الگ کالم میں کی جائے گی تاہم سردست اتنا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں میثاق جمہوریت کے کمالات عروج پر ہیں اور سرکاری نظامِ حکومت تباہی ، بربادی، ذلت، رسوائی اور بدنامی کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہے ۔
اسی طرح انتخابی نظام میں اصلاحات کے لیے ایک مستقل انتخابی ادارے/ الیکشن کمیشن کا قیام یا موجودہ الیکشن کمیشن کو اُن مقاصد کی بنیاد پر از سرِ نو منظم کیا جائے ۔ الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے وابستہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مشاورت سے خود ان جماعتوں کے لیے کچھ قواعد و ضوابط مرتب کرے تا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنی جماعتی سطح پر انتخابی عمل سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ درست انتخابی فہرستوں کی تیاری، نئے ووٹرز کا اندراج ، پولنگ اسٹیشنوں کی تفصیلات ، پولنگ عملے کی ذمہ داریاں اور انتخابی حکمت عملی سے متعلقہ تمام معلومات اور قوانین سال بھر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب رکھی جائیں۔ الیکٹرانک /ڈیجیٹل پولنگ کا نظام متعارف کروانا بھی مشکل نہیں ۔ اس نظام سے بار بار کے انتظامی اخراجات اور دھاندلی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے ۔ پولنگ کو ایک دن تک محدود رکھنے کے بجائے زیادہ دنوں /ہفتوں تک پھیلائے رکھنے سے Turn Outکی شرح بڑھ سکتی ہے ۔ جعلی ووٹوں کا اندراج سنگین قومی جرم قرار دے کر اُس کے مطابق قوانین مرتب کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کو سیاست سے الگ کر کے ایک بہت قابل اعتماد ادارہ بنانے کی ضرورت ہے ۔
ہمارا انتخابی نظام اور جمہوریت چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے جسے جتنا جلد ممکن ہو آزاد کروایا جائے ۔ اصلاحات کبھی آسان نہیں ہوتیں؛ تا ہم گزشتہ کئی سال سے میں تجویز کر رہا ہوں کہ افراد کے بجائے جماعتیں انتخاب لڑیں اور انتخابی نتائج کے بعد موزوں امیدواروں کا چنائو کیا جائے نہ کہ ایک ایک ٹکٹ کروڑوں میں بیچا جائے ۔سیاسی جماعتوں میں قومی ، صوبائی اور علاقائی جماعتوں کی حیثیت کا تعین کیا جائے ۔ کسی محلے یا گائوں کی مقامی این جی او کی رجسٹریشن کے لیے قواعد تو موجود ہیں لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن کے لیے غالباً کسی قاعدے کلیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا تی۔ قابل قبول انتخابی اصلاحات کا تجربہ بلدیاتی الیکشن میں چھوٹے انتظامی یونٹس کی سطح پر کیا جا سکتا ہے تا کہ اُن پر عمل درآمد میں حائل مشکلات کو قومی اور صوبائی الیکشن سے پہلے دور کر دیا جائے ۔ جماعتی اور نظریاتی وابستگی کی حد تک سرکاری ملازمین کو بھی آزادی ہونی چاہیے ۔ انتخابی ادارے کے با اعتماد (Credible)ہونے کا پیمانہ یہی ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد برقرار رہے ۔
پاکستان کسی بھی صورت مادرپدر آزاد جمہوریت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ہمیں مزید تاخیر کیے بغیرادارہ سازی‘ اُن کے قواعد و ضوابط اور اُن پر عمل درآمد کا ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ (انشا اللہ باقی آئندہ جمعہ )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں