پاکستان کو تنہا سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا… (چھٹا حصہ)

گزشتہ کالم میں انتخابی نظام پر کسی حد تک انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے گفتگو ہو چکی ہے ۔ اگرچہ اس موضوع پر ایک الگ کالم درکار ہے تاہم چیدہ چیدہ باتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ادارہ صرف انتخابات کے وقت فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی طرح حرکت میں نہ آئے بلکہ دوسرے ہمہ وقتی اداروں کی طرح سارا سال باقاعدگی کے ساتھ کام کرتا رہے اور اِس انتخابی ادارے کو ہسپتالوں ، بلدیاتی اداروں اور دیگر دفاتر سے جاری ہونے والی معلومات ،پیدائش و اموات کے ریکارڈاور نادرا کے تعاون سے سال بھر اپنے فوری اور طویل المدتی اہداف پر نظر رکھنی چاہیے ۔
عدلیہ،انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ ایک اہم بنیادی ادارے کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور وہ ''نظریہ پاکستان‘‘ کا ادارہ ہے ۔ ملک و ملت کے بنیادی عقائد ونظریات کسی بھی عمارت کی بنیاد کی طرح ہوتے ہیں جن سے کبھی بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نـظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کو شخصی تاویلات پر چھوڑنے کے بجائے بنیادی عقائد کی ریاستی تشریح کی جائے اور اُس کے ساتھ ریاستی اداروں کو اُس کا جہاں تک ممکن ہو پابند کیا جائے ۔ بطور نظریاتی مملکت داخلی اور خارجی ہر سطح پر پاکستان کا بطور نظریاتی مملکت کے تعارف ہنوز تشنہ دکھائی دیتا ہے۔ 1947ء کو برصغیر انڈیا باہمی افہام و تفہیم اور مذاکرات کے نتیجے میں دو خود مختار ممالک میں بطور پاکستان اور ہندوستان تقسیم ہو گیا ۔ ہندوستان نے داخلی سطح پر روز اوّل سے آج تک اپنی انتہا پسندانہ روش کوتو جاری رکھا ہے لیکن مخصوص ہندووانہ تاثر سے بچنے اور بیرونی دنیامیں اپنا سیکولر چہرہ متعارف کروانے کے لیے بھارت کی اصطلاح ایجاد کر رکھی ہے ۔ ماضی بعید زیر بحث لائے بغیر ماضی قریب کے حالیہ الیکشن اور بی جے پی کے جبر سے ہزاروں مسلمانوں کے مذہب تبدیل کرنے کے افسوس ناک واقعات بذات خود اس بات کا ثبوت ہیںکہ پڑوسی ملک کا درست نام بھارت نہیں ہندوستان ہے۔ آزادی کے بعد خود قائد اعظمؒ نے اپنی ہر تحریر اورتقریرمیں مسلسل ہندوستان کا لفظ استعمال کیا اورکبھی بھی بھارت یا انڈیا لکھا نہ بولا۔ اُس کے برعکس ایک مسلمان نظریاتی مملکت کے حوالے سے پاکستان کا تعارف اور اُس کا تاثر اصل صورت حال کے بالکل برعکس ہے ۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ''لکم دینکم ولی دین‘‘ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ کسی بھی مسلمان مملکت کے لیے بہترین رہنمائی ہے ۔ اس سے زیادہ سیکولر اور جامع ظرفی کا مظاہرہ کوئی دوسری تہذیب نہیں کر سکتی۔ ہمیں صرف نظریہ پاکستان کی اصطلاح کو اُس کے حقیقی معنوں میں اچھی طرح روشناس کروانا ہے ۔
میری رائے ہے کہ مرکز اور صوبوں میں نظریہ پاکستان کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے لیے ایک مستقل وزارت ہونی چاہیے جو ہمہ وقتی طور پر تعلیمی اداروں اور دیگر مراکز کے ذریعے نئی نسل تک یہ پیغام نسل در نسل پہنچانے کا اہتمام کرے۔ نظریہ کسی بھی مملکت یا معاشرے کے جسم میں روح کا کام کرتا ہے جس کے بغیر جسم کو زندہ نہیں رکھا جا سکتا ۔ جس طرح روح کے بغیر کوئی انسانی جسم زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح اقوام اور ممالک کی باوقار زندگی بھی اُن کے نظریے اور عقیدے کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ۔
متحدہ ہندوستان میں لگنے والا نعرہ کہ '' بٹ کے رہے گا ہندوستان... لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘ انگریز اور ہندو کی بھرپور ملی بھگت اور دبائو کے باوجود قائداعظم کا اس بات پر ڈٹے رہنا کہ ''بن کے رہے گا پاکستان ‘‘ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کا یہ اعلان کہ ''کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ اور ماضی قریب میں جنرل پرویز مشرف کا واضح اور دو ٹوک بیان کہ ''سب سے پہلے پاکستان ‘‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہمیں کسی شرمندگی اور معذرت خواہی کے بغیر پاکستان کو بطور نظریاتی مملکت کھلے دل سے قبول کر کے اپنے فرائض کو نبھانا ہو گا۔
صرف سفر کرنے کی خواہش منزل تک پہنچانے کی ضمانت نہیں دے سکتی‘ جب تک منزل مقصود کا واضح تصور اور تعین نہ ہو۔
سابق امریکی صدررچرڈ نکسن سے پوچھا گیا کہ آپ کی رائے میں امریکی صدرکیسا ہونا چاہیے تو نکسن نے جواب دیا کہ ''امریکی صدر Committedامریکن ہونا چاہیے، تھوڑا سا ذہین ، تھوڑا سا پڑھا لکھا اور تھوڑا سا سمجھدار ہونا چاہیے ‘‘ نکسن سے مزید استفسا رکیا گیا کہ امریکی صدرتھوڑا سا ذہین اور تھوڑا سا سمجھدار ہو تو اُس نے کہا کہ امریکی صدر کے لیے بنیادی اور اولین شرط ''امریکہ کے ساتھ پختہ اور غیر مشروط وابستگی ہونی چاہیے‘‘گویا کہ باقی تمام چیزوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔ نظریہ پاکستان سے عدم دلچسپی اور رفتہ رفتہ قیادت کی لا تعلقی کا نتیجہ کچھ تو سابق مشرقی پاکستان کی صورت میں سامنے آیا اور کچھ باقی ماندہ پاکستان کے موجودہ حالات سے ظاہر و باہر ہے ۔ پاکستان کا حقیقی تصور وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہو تاتو آئے دن عظیم تر پاکستان ، اسلامی پاکستان ، مذہبی پاکستان ، ترقی پسند پاکستان اور نیا پاکستان کی اصطلاحات کبھی متعارف نہ ہوتیں۔ اس لیے کہ اللہ کے فضل سے پاکستان بذات ِ خود اُن تمام خوبیوں کا مرکز اور مظہر ہے جن کی کسی قوم کو ضرورت ہو سکتی ہے ۔ نظریہ پاکستان پر قیادت کی نظر موجودرہتی تو کبھی یہ وقت نہ دیکھنا پڑتاکہ ایک وزیراعظم لاہور میں یہ کہتے کہ ''سارا ہندوستان ایک ہی قوم تھی، ایک ہی لوگ تھے، ایک ہی خوراک، ایک ہی مزاج اور ایک ہی لباس و عادات کے مالک تھے ۔ خدا جانے یہ لکیر درمیان میں کیسے پڑ گئی ‘‘کسی ساتھی کو اُن کی خدمت میں گزارش کرنی چاہیے تھی کہ ہندوستان کی تقسیم کی اس لکیر کے پیچھے دو سو سالہ خون جگر شامل ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کی طرح ہمیں بھی ملک و ملت کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ یہ کام خیراتی سطح پر سیاسی جماعتوں کے رویے پر چھوڑا جانے والا نہیں بلکہ اس پر آئینی اور قانونی پہرے داری میں ایک مستقل نظام کی وضع کیا جانا ضروری ہے ۔
عد لیہ کے متعلق تمام تر احترام و تکریم کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ ملک کے دوسرے نظاموں کی طرح ہمارا عدالتی نظام بھی اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے ۔ عدلیہ کو سیاسی ، جماعتی اور دوسری دخل اندازیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات درکار ہیں ۔ ہماری عدلیہ میں بعض بہت نیک نام ، اہل ، دیانتدار اور منصف مزاج لوگ بھی ہر دور میں دستیاب رہے ہیں تا ہم عام آدمی کے لیے آسانی کے ساتھ انصاف کی فراہمی ابھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ۔ سیاسی ، سماجی ، علاقائی اور مالی اثر و رسوخ سے آزاد اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کام کرنے والے افراد کی معاشرے میں کمی نہیں ہے ۔ اراکین عدلیہ کی تقرری ، ترقی، تبادلے اور مراعات تمام چیزوں کو کارکردگی اور کریڈیبیلیٹی برقرار رکھنے سے مشروط کیا جا سکتا ہے ۔ گواہی ، برآمدگی اور لمبی لمبی تاریخوں کے پیچیدہ نظام کو قابل عمل شکل دینی ضروری ہے ۔ قانون دان طبقے میں سیاسی آلائشوں سے پاک بھرپور صلاحیت اور اہلیت کے حامل افراد کی ایک بڑی تعداد سے اس ضمن میں استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ سیاسی ، سرکاری اور صحافتی تقریبات کو رونق بخشنے کے لیے اراکین عدلیہ کے علاوہ دوسرے طبقات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ عدلیہ میں ہر سطح پر تربیت کے لیے کورسز اور جج صاحبان کو جدید سہولتوں کی فراہمی بھی ضروری ہے ۔ عدلیہ کو سیاسی دخل اندازی سے اور سیاست کو عدالتی دخل اندازی سے بچا کے رکھنا بھی ضروری ہے ۔
پاکستان میں مقتدر اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر طرح کی دہشت گردی کی روک تھام کا اہتمام کریں۔ عسکری دہشت گردی کا مقابلہ یقینا کامیابی سے ہو رہا ہے اور ساری قوم کی دعائیں اپنی قومی فوج کے ساتھ ہیں۔تاہم سیاسی، انتظامی ، معاشی اور اقتصادی دہشت گردی کی روک تھام بھی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ ہندوستان 75ملین ڈالر کے خرچ سے مریخ (Mars)پر پہنچ گیا اور ہم 300ملین ڈالر سے زائد خرچ کر کے راولپنڈی صدر سے اسلام آباد بلیو ایریا تک 30میل کا سفر کر رہے ہیں۔اس شاہانہ منصوبے کو اقتصادی دہشت گردی کے علاوہ اور کون سا نام دیا جا سکتا ہے۔ایک طرف غریب ملک کے اربوں روپے کے اخراجات اور دوسری جانب راولپنڈی سے اسلام آباد تک کے دکانداروں ، تاجروں اور مقامی ٹرانسپورٹروں کا معاشی قتل عام جس کی تلافی سالہا سال تک ممکن نہیں۔
بہر طور عدلیہ میں ایسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں جس کے نتیجے میںانتظامیہ ، پولیس ، پراسیکیوشن اور جج صاحبان سب ایک ٹائم فریم کے پابند ہوں اور عام آدمی کا عدلیہ پر اعتماد اور عدلیہ کا کھویا ہوا وقار بحال ہو سکے۔(باقی انشاء اللہ آئندہ جمعہ)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں