سیاسی حادثات جہاں کچھ لے کرجاتے ہیں وہاں کچھ نہ کچھ دے کر بھی جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ان سیاسی حادثات نے کئی لوگوں کو یہ سبق پکی طرح یاد کروا دیا ہے کہ غرور، تکبر، بڑے بڑے بول اور ناشکری کی سزا ناقابل برداشت حد تک قبول کرنا پڑتی ہے۔بقول شاعر:
اُن کی ضد ہے کہ ظلم و ستم بھی سہو
اور تاکید کرتے ہیں چپ بھی رہو
جس مسلم کانفرنس کو ایوب خان، ضیاء الحق اور بھٹو کا فوجی اور سول مارشل لا ختم نہ کر سکا، جو جماعت شیخ محمد عبداللہ ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کی جدائی کے باوجود چل سکتی ہے ،جس کا ماضی قابل فخر اور مستقبل قابل رشک ہو اُس جماعت نے ان دوستوں کا کیا بگاڑا ہے کہ روزانہ قوم کو اس کے خاتمے کی نوید سناتے ہیں۔ان سب کے پاس مسلم کانفرنس کا کیا متبادل ہے؟ کیا یہی متبادل ہے جو دوستوں نے مل کر اپنی عزت نفس اور ریاستی تشخص کے تحفظ کے لئے تلاش کیا ہے۔ کیا ایکٹ 74 کی اصلاح کا یہ راستہ ہے؟ منگلا ڈیم کی رائیلٹی کے اسی چشمے سے برآمد ہو گی کیا؟
مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق صدر کی حیثیت سے پاکستان کے بڑے سے بڑے فورم کی قیادت کرنے والے سردار سکندر حیات خان کو ہفتوں ، مہینوں اور سالوں اپنی ہی پارٹی کی قیادت کے دیدار کا موقع نہیں ملتا جس پر وہ قومی اختیارات میں اپنے درد دل کا باربار اظہار کرتے ہیںجو ہم سب کی اذیت کا باعث بھی ہے۔سردار سکندر حیات خان بلا شبہ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کے بعد ریاست کی بڑی شخصیات میں سے ہیں۔اُنھیں غیر ریاستی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ پہلے بھی ہو چکا ہے ۔مسلم کانفرنس کی ایک اسمبلی نے اُنھیں دو بار آزاد کشمیر کا صدر منتخب کیا ۔راقم نے خود اُن کے چیف پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دیئے اور دوسری بار منتخب ہونے کے بعد انھوں نے جلسہ عام میں کہا ـکہ''اوپر اللہ اور نیچے مجاہد اوّل‘‘ اُن کا یہ تاریخی جملہ آج بھی قومی اور ریاستی تمام اخبارات میں موجود ہے ۔ پاکستان
میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ اُن کے تعلقات انتہائی مستحکم تھے ۔ اس موقع پر اُن کی طرف سے جاری کی گئی چارج شیٹ کا ذکر مقصود نہیں تا ہم وہی چارج شیٹ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کی ایک بڑی بنیاد بنی ۔ آزاد کشمیر میں پی پی پی کی حکومت نے اپنے قیام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ سردار سکندر حیات خان کو آزاد کشمیر کی صدارت سے جس طرح برطرف کیا اُس کا اظہار خود سردار سکندر حیات خان کی زبان سے اخبار ات کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''ایک چپڑاسی کو بھی برطرف کرنے کے لیے چارج شیٹ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن مجھے بطور صدر جس طرح پیپلز پارٹی نے صدارت سے الگ کیا اُس سے زیادہ کمینے پن، گھٹیاانداز اور بھونڈے پن کا مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘ خیال واثق تھا کہ اُس کے بعد سردار سکند ر حیات خان اُس تجربے کو کبھی بھی نہیں دُہرائیں گے لیکن مقام افسوس ہے کہ اتنی بڑی قد کاٹھ کی شخصیت نے ایک بار پھر نواز لیگ کے ساتھ اُسی تجربے کو دُہرایا جس کا نتیجہ ماضی کے تجربے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ نواز لیگ آزاد کشمیر کے قائدین اور کارکنان اپنی مرکزی قیادت کے دیدار کی ایک ایک جھلک کو ترس ترس کر جب تھک جاتے ہیں تو پھر خود ہی اپنی شکایات اور غصے کو اخبارات کے ذریعے نکالتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نوے (90ء )کی دہائی میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں ایک بھرپور دعوت کا اہتمام کیا جس میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو مدعو کر کے اعلان کیا کہ مجاہد اول آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں جس کے بعد آئندہ چند روز میں سردار سکند ر حیات خان آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہو جائیں گئے جس کے لیے میں اُنھیں پیشگی مبارک دیتا ہوں۔مسلم کانفرنس کے رہنما کی حیثیت سے عزت و احترام کا وہ مقام اور موجودہ صورتحال کا تقابلی جائزہ بہت تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے ۔ سوال سردار سکندرحیات خان کی ذات کا نہیں بلکہ ریاست کے ایک بڑے سیاسی رہنما کے مقام اور مرتبے کے احترام کا ہے ۔ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آزاد کشمیر ہو یا گلگت بلتستان ‘ریاست کے غیور لوگوں کو حکومتی بیساکھیوں سے آزاد کیا جائے ۔ اقتدار کی سیاست نے بڑے بڑے لوگوں کو بہت بے آبرو کر دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ دوسروں اور اپنے تجربات سے مزید وقت ضائع کیے بغیر سبق حاصل کریں اور اپنے سیاسی کندھے اسلام آباد میں بننے والی ہر حکومت کو اتنی کم قیمت پر بلکہ اُدھار پر رضاکارانہ طور پر پیش کرنے سے سختی سے اجتناب کریں ۔
رہی بات نظریاتی سیاست کی تو آزاد کشمیر میں الحا ق پاکستان اور خود مختار کشمیر کے علاوہ ، محدود سا نظریاتی ووٹ بھٹو ازم کا اگرچہ ضرور موجود ہے تاہم وہ بھی ہر دور میں مرکزی حکومت کی بیساکھیوں کا محتاج رہا ہے ورنہ باقی لوگوں کو تو اعلان کرنا چاہئے کہ وہ آزاد کشمیر کی آئندہ انتخابی سیاست بھی سیاسی بھگوڑوں کی بنیاد پر ہی کیا کریں گے کیونکہ وہ کسی بھی سیاسی کارکن کو اپنی جماعت /سیاسی طاقت کی بنیاد پر تو انتخابات جتوانہیں سکتے۔ مسلم کانفرنس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے آزاد کشمیر کو ساری ریاست جموں و کشمیر کیلئے نظریاتی بیس کیمپ بنا کر رکھا ہے۔ کیا غیر ریاستی سیاسی یلغار کا مقصد لوگوں کی قیمتیں مقرر کرنا ہے۔ تعمیر و ترقی اور ملازمتیں بنیاد ہوں تو مقبوضہ کشمیر کی تمام نشستیں بی جے پی نے جیت لی ہوتیں۔ سلام ہے ہندوستان کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے غیرت مند کشمیریوں کو جنہوںنے اپنے ہر دور کی سازشوں سے اپنے تشخص کو بچا کر رکھا ہے۔ تعمیر و ترقی ، پیسہ اور میڈیا کو ہی بنیاد بننا ہوتا تو سابقہ سوویت یونین ، عراق، لیبیا، شام اور یمن کو یہ دن کبھی نہ دیکھنے پڑتے۔
مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام نے خرید و فروخت کو مسترد کر دیا ہے۔ ہندوستانی جبر کو مسترد کر دیا ہے ۔ تعمیر و ترقی کو رد کر دیا ہے اور عہد کر لیا ہے کہ وہ اپنے تشخص پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کیا ہم تاریخ کے اس تجزیے سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار ہیں یا پھر کمیشن پر ملنے والی کشمیر کونسل کی چند سکیموں کے جھوٹے وعدوں پر خود کشمیریوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی غیرت کی نیلامی کا سبب بنتے رہیں گے۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو کمزور کرنا ہمیشہ سے ہندوستان کی دلی خواہش رہی ہے۔ جبکہ قائد اعظم کا رویہ، سوچ، عمل اور اقدامات نے کشمیریوں کو اتحاد کے راستے پر ڈال کر پاکستان کے ساتھ فطری تعلق میں مزید شدت اورقوت فراہم کی۔
پاکستان کے بعض نا عاقبت اندیش سیاستدان جموںو کشمیر کی قیمت پر ہندوستان کو خوش کر کے اس کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جبکہ کشمیری عوام اپنی جان ، مال، عزت، آبرو سب دائو پر لگا کر پاکستان کے ساتھ اپنے قدرتی او رفطری تعلق پر کامیاب پہرہ داری کر کے خوش رہنا چاہتے ہیں۔
ہندوستان کے تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جموں و کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر مصلحت سے بالاتر ہو کر اپنی آٹھ لاکھ قابض فوج کی پشت پر کھڑے ہیں لیکن افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما اپنی دفاع کرنے والی قومی فوج کو آئے دن طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔جموں وکشمیر کے عوام کی اکثریت غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے جسے غیر ریاستی جماعتوں نے اپنی اپنی جماعتوں سے وابستگی کی شرط کے بغیراعتماد کے قابل نہیں سمجھا ۔
بہرحال پاکستان کے جو سیاستدان خود قائد اعظم کے پاکستان کو ہی سنبھالنے سے قاصر ہیں ان سے گلہ کیا؟ لیکن پاکستان کی وہ محب وطن قوتیں ، عناصر اور ادارے جنہیں پاکستان کی سلامتی عزیز ہے انہیں چاہئے کہ آزاد کشمیر کو مزید تختہ مشق بننے سے بچا کر پاکستان کے اس بازوئے شمشیر زن اور مضبوط نظریاتی اور دفاعی حصار کو کمزور نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس رئیس الاحرار قائد ملت چوہدری غلام عباس اور مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی فکری رہنمائی میں اپنوں اور بیگانوں کی قدم قدم پر ہونے والی سازشوں کے باوجود اپنا نظریاتی سفر جاری رکھے ہے ۔
(ان شاء اللہ باقی آئندہ جمعہ )