ہندو طالبان کے جارحانہ عزائم

قیام پاکستان کسی جبر یا جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات اور آزادی ہند کے طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوالیکن یوں لگتا ہے کہ ہندو قیادت روز اول سے ہی پاکستان کے وجود کے درپے ہے اور قائد اعظم نے اس مذاکراتی ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے آزادی کے باقی ماندہ مسائل اورتنازع کشمیر کے حتمی حل کے لئے یکم نومبر 1947ء کو جواہر لعل نہرو کو لاہور آنے کی دعوت دی جو خودتو نہ آئے لیکن اپنی جگہ لارڈاسمے کو لاہور بھیجا‘ جس نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان سے ملاقات کی۔ قائد اعظم نے اس ملاقات میں ہندوستانی قیادت کے ہمراہ سرینگر کا مشترکہ دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جو جواہر لعل نہرو کے عدم تعاون کے باعث ممکن نہ ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد پاک ہند مذاکرات کی یہ بنیاد قائد اعظم نے اپنے ہاتھوں سے ڈالی۔
ہندوستانی قیادت نے روز اول سے ہی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے کے سازو سامان ، اسلحہ اور روپیہ پیسے کا کچھ حصہ آج بھی ہندوستان کے ذمے واجب الادا ہے۔مودی حکومت بنیادی طور پر ہندوطالبان کی حکومت ہے اور خود نریندر مودی ہندو طالبان کے امام اور امیر ہیں ۔ اپنی الیکشن مہم اور بعد میں پے درپے ایسے بیانات دیئے جو کسی بھی بڑے ملک کے لیڈر کے شایان شان نہیں ۔ وہ گجرات اور ہندوستان کی حکومت میں ابھی تک فرق کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیر پر آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان اور اس پر ناکامی۔ جموں و کشمیر کے الیکشن میں کشمیر میں بی جے پی کی عبرتناک شکست ، سرینگر میں پاکستانی پرچم اور ہزاروں کے اجتماع میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اور آل جموںو کشمیر مسلم کانفرنس کے دیئے ہوئے ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعروں کی گونج اور پھر مزید یہ کہ کشمیر میں مسلمانوں کے بعد سرینگر میں سکھوں کی جانب سے پاکستان زندہ بادہ کے نعرے اور پاکستانی پرچموں کے لہرائے جانے کے واقعات سے نریندری مودی کو سبق حاصل کرنا چاہئے تھا۔ ممکن ہے مودی صاحب کو تاثر دیا گیا ہو ''میثاق جمہوریت‘‘کی صورت میں ہندوستان کو کھلی چھٹی کا لائسنس دستیاب ہے،کہیں بھی جو چاہیں کریں۔ہندوستان کا مسلسل جارحانہ رویہ اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی خاموشی بہت افسوس ناک ہے۔ کچھ واقعات یقینا ایسے ہیں جو ہندوستانی قیادت کی حوصلہ افزائی اور پاکستانیوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف صاحب نے اپنی الیکشن مہم میں ہندوستانی TV پر انٹرویو میں کہا کہ مستقبل کا پاکستان آرمی چیف مشاورت اور اطمینان سے متعین کیا جائے گا اور ممبئی حملوں کے حوالے سے تحقیق کی جائے گی اور ا ن معلومات کو ہندوستان سے شیئر کیا جائے گا، سارک بزنس فورم پر لاہور میں گفتگو کے دوران میاں صاحب نے کہا کہ''ہم اور ہندوستان کے لوگ ایک ہیں‘ نام شکلیں ، لباس اور عادات و اطوار ایک ہیں‘ مجھے حیرت ہے کہ دو ملکوں کے درمیان موجود یہ لکیر (تقسیم کرنے والی سرحد) کہاں سے آگئی‘‘۔ میاں نوازشریف کے بعض وزرا بھی فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے غیر محتاط ہو جاتے رہے ہیں۔ آرمی چیف نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU)میں پوری جرأت مندی سے پاکستانی قوم کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے کہا کہ ''مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے، جسے عالمی قراردادوں کے تناظر میں حل ہونا ہے‘‘ اس سے پہلے آرمی چیف نے قائداعظم کی کشمیر پالیسی کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ ان باتوں پر رد عمل دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ''تما م جنگیں پاکستان کی فوجی ادوار میں ہوئی ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ''اگرہماری معیشت مستحکم نہ ہوئی تو ہمارے لئے ایٹمی صلاحیت برقرار رکھنا ایک مسئلہ ہو سکتا ہے‘‘۔ یہ محض اتفاق یا اڑوس پڑوس والوں کے لئے توجہ دلائو نوٹس ہے۔ میں کچھ تبصرہ نہیں کر سکتا۔ شہباز شریف صاحب حبیب جالب کو ضرور گنگنایا کریں لیکن علامہ اقبال نام کے ایک صاحب گزرے ہیں جنہیں مصور پاکستان بتایا جاتا ہے انہیں بھی کبھی پڑھ لیا کریں۔ انہوںنے تو کہا ہے کہ ؎
آ تجھ کو بتائوں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول‘ طائوس و رباب آخر
صرف مضبوط معیشت بنیاد ہوتی تو لیبیا، عراق ، کویت، ایران اور سعودی عرب کو موجودہ مسائل کبھی درپیش نہ ہوتے۔
مورخین کا اس بات سے اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت جب تدفین اور کفن دفن کے لئے بھی مال اسباب وسائل اہلِ بیت اور صحابہ کرام ؓکے لئے ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آگئے اس حال میں بھی رسول ؐاللہ کے حجرہ مبارک کی دیواروں پر اعلیٰ قسم کی تلواریں‘ خنجر اور زرہ بکتر یعنی ضرب و حرب کا سازو سامان موجود تھا۔ اس واقعہ کو اسرائیلی رہنما گولڈ میئر نے اپنے لئے رہنمائی کا ذریعہ اور بنیاد قرار دیا ہے۔
ہندوستان کی دھمکیوں کے جواب میں کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہونا چاہئے تھا ۔ پارلیمانی دفاعی کمیٹی اور وزارت خارجہ کو متحرک ہوجانا چاہئے تھا۔ دنیا بھر کے سفارت خانوں کو بلا کر متوجہ کرنا چاہئے تھا کہ ہندوستان کے اصل عزائم کیا ہیں اور وہ پاکستان دشمنی میں کس حد تک آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن جب کچھ نہیں ہو ا تو بھلا ہو آرمی چیف کا کہ انھوں نے کور کمانڈر اجلاس بلا کر پاکستان کا موقف پیش کیا اور جنرل پرویز مشرف کو خدا نے توفیق دی کہ انہوںنے کھل کر دلائل کے ساتھ جامع انداز میںنریندر مودی کو جواب فراہم کیا۔ ہندو قیادت طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور ہمارے حکمران تجارت کی زبان بولتے ہیں جو بہت افسوس ناک ہے۔ ہندوستانی فوج کی سرپرستی میں سابق مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے ذریعے ریاستی دہشت گردی کرنے والوں کو آج انعامات دیئے جا رہے ہیں اور حکومت پاکستان جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے راہنمائوں کے اجتماعی قتل عام اور پھانسیوں پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
پاکستانی قیادت کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ پاکستان کو ہندوستان کی مدد سے چلانے اور پاکستان کو ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی کسی کی خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی ۔
بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ''اقتصادی راہداری پر چین کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے‘‘۔ انہیں کیوں غلط فہمی ہوئی کہ چین اپنے فیصلے ہندوستان کی مشاورت سے کرے گا۔ چین نے تو نریندرمودی کو ہندوستان کے نقشے سے کشمیر اور اروناچل پردیش کو الگ کر کے دکھا کر ہندوستان کو اپنے اصل قد کاٹھ سے آگاہ کر دیا ہے ۔ چین نے جب کشمیر کو ہی ہندوستان کے نقشے سے الگ کر دیا تو اب اقتصادی راہداری کا گلہ یوں بھی بے جواز لگتاہے۔ جس طرح چینی قیادت نے کشمیر کو ہندوستان کے اٹوٹ انگ کی رٹ کا حتمی جواب فراہم کر دیا ہے اسی انداز میں پاکستانی قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ نریندر مودی کو باخبر کریں کہ پاکستان میانمار نہیں بلکہ پاکستان ہے جس نے 70سال سے اپنے سے دس گنا بڑے ہندوستانی فوجی دبائو کو کامیابی سے روک رکھا ہے۔ مودی کے ہندوستانی زیر قبضہ کشمیر میں اب تو مسلمانوں کے بعد سکھوں نے بھی پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ہیں۔
پاک چین سرحدی معاہدہ پاکستان کے فوجی حکمران اور چینی قیادت کا عظیم کارنامہ ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خا ن کی دوربین نگاہوں کو جب خدشہ محسوس ہو اکہ مستقبل میں کسی وقت اگر خدانخواستہ پاکستان کے لئے تنہا کشمیر کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے تو مدد کے لئے خطے کے ایک طاقتور ملک چین کو فریق کی حیثیت سے موجود ہونا چاہئے ۔ صرف اسی ایک معاہدے پر غور کریں تو نواز حکومت کو فوجی ادوار اور میثاق جمہوریت کے دور میں واضح فرق دکھائی دے گا۔
پاکستانی قیادت کو چین کے اقدامات سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ لداخ میں ہندوستان کی تشویش اور احتجاج کے باوجود چینی فوج نے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق پیش قدمی کر کے پکے فوجی مورچے قائم کر دیے۔ شمال چینی سمندر (North Chaina Sea) میں تیل کی تلاش ہندوستان کے احتجاج کے باوجود چین نے جاری رکھی۔ اقتصادی راہداری پر ہندوستانی تشویش پر چین کا نوٹس لینے سے انکار۔ پاکستان کے لئے چین کا ایٹمی ابدوزیں دینے کا فیصلہ اور پہلی ایٹمی ابدوز کی کراچی میں ریفیولنگ (Refulling) اور واپسی پر ہندوستان کی تشویش قبول کرنے سے چین کا انکار ۔ اس طرح کے کئی واقعا ت میں سے کسی ایک پر بھی ہندوستا ن کو یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ وہ چینی سفیر کو بلا کر احتجاج کریں۔ زیادہ سے زیادہ ہندوستانی اخبارات میں اپنی تشویش کا اظہار کرنے میںعافیت سمجھی جاتی ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ ؎
کون سنتا ہے کسی درد کے مارے کی صدا
کوئی سن لے بھی تو کہتے ہیں کہ سود ائی ہے
چینی قیادت کے رویے میں پاکستان کے شکست خوردہ اور معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والے سیاست دانوں کیلئے ایک بڑا سبق موجود ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں