گزرے اتوار آئی ایس پی آر لاہور آفس کے انچارج کرنل شاہد عباس کرمانی نے یہ افسوسناک اطلاع دی کہ آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی میجر جنرل (ر) خالد بشیر انتقال کر گئے ہیں اور اُنہیں لاہور چھاؤنی کے کیولری گراؤنڈقبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ہے ۔ میجر جنرل خالد بشیر مئی 1993ء سے جولائی 1994ء آئی ایس پی آر کے سربراہ رہے ۔ اُن کا تعلق کور آف سگنلز سے تھا۔ بریگیڈئیر سے میجر جنرل کے رینک پر ترقی ملی تو اولین خواہش سگنل آفیسر انچیف کا عہدہ تھا لیکن شاید سنیارٹی حائل ہو گئی تھی۔ یہ عہدہ سینئرکے حوالے ہو گیا اور میجر جنرل خالد بشیر کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ اُنہوں نے یہ ذمہ داری میجرجنرل جہانگیر نصراللہ کی جگہ سنبھالی جو اپریل 1993ء میں آئی ایس پی آر سے واپس کور آف انجینئرز میں چلے گئے تھے‘ جہاں اُنہیں بعد ازاں پاک آرمی کا انجینئر انچیف مقرر کیا گیا۔ میجر جنرل خالد بشیر نے قریباً ایک برس چھ ماہ آئی ایس پی آر کی سربراہی کی ۔ انجینئر آفیسر کی رخصتی کے بعد سگنل آفیسر کی ڈی جی کی حیثیت سے آمدپر آئی ایس پی آر میں کوئی خاص ہلچل نہیں تھی‘ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ آئی ایس پی آر کیڈر سے تعلق رکھنے والے بریگیڈئیر صدیق سالک اگست 1988ء میں فضائی حادثے میں شہید ہوئے ۔ اُن کے بعد فوج کے لڑاکا اور سروسز شعبہ جات کے مایہ ناز افسروں کی کمان کا دور شروع ہو گیا۔ میجر جنرل خالد بشیر اس سلسلے کی تیسری کڑی تھے ۔ ہمیں سابق تجربات کے باعث اندازہ تھا کہ موصوف بھی اپنے پیشرو کی مانند پہلی مرتبہ آئی ایس پی آر تشریف لائیں گے۔
تبدیلی کمان کے موقع پر میں آئی ایس پی آر کراچی میں تعینات تھا۔ کراچی کور میں موجود سگنل آفیسر کے مطابق میجر جنرل خالد بشیر کی شہرت ایک ایسے پروفیشنل سولجر کی تھی‘ جس نے کمان ، سٹاف اور تدریسی عہدوں پر محنت ، دیانت اور لگن کے ساتھ فرائض انجام دئیے۔ ظاہر ہے کہ میجر جنرل کے رینک تک پہنچنے کے لئے کئی دریا عبور کئے ہوں گے‘ لیکن میجر جنرل خالد بشیر کے دوران ملازمت کے کارہائے نمایاں میں دُور دُور تک تعلقات عامہ ، میڈیا اور ادب وغیرہ کا ذکر نہیں تھا۔ بریگیڈئیر صدیق سالک کے بعد آئی ایس پی آر کی کمان کرنے والے دونوں میجر جنرل بھی پیشہ ورانہ لحاظ سے پاک فوج کے مثالی سپوت تھے ۔ اُنہیں پیشہ ورانہ اسباق ازبر تھے ۔ عسکری خطرات اور جوابی حکمت عملی پر گھنٹوں سیر حاصل گفتگو کرتے تھے‘ البتہ میڈیا اور تعلقات عامہ کے حوالے سے ''ابتدائے عشق‘‘ کا سامنا تھا۔ مستقبل بینی کا باب کھولنے کے لئے برسوں کی ریاضت درکار تھی۔ اِس کیفیت میں روزمرہ اُمور سے نبرد آزما ہونا بھی دشوار تھا‘ کُجا کہ میڈیا کے حوالے سے مستقبل کی عسکری ترجیحات پر سوچ بچار کی نوبت آتی ۔
میجر جنرل خالد بشیر نے اولین خطاب میں حال ِ دل کھول کر بیان کر دیا۔ اُنہوں نے واضح الفاظ میں باور کرایا کہ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ میڈیا ، تعلقات ِ عامہ اور نشر و اشاعت وغیرہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے پہلے دورے کے لئے کراچی کو منتخب کیا۔ معمول کی بریفنگ اور اعلیٰ عسکری حکام سے ملاقاتوں کے ساتھ میڈیا کے احباب سے بھرپور ملاقاتیں کیں ۔ اُنہیں بعض قلمکاروں اور میڈیا پرسنز کے خیالات کی دائمی اصلاح کی فکر لاحق تھی۔مجھے اندازہ ہوا کہ انہیں کسی غیر مرئی ہاتھ نے مخصوص زاویے سے بریف کیا ہے ۔ یوں صحافی دوستوں کے اجتماع میں اصلاحی پروگرام سے فاصلے پر رکھنے کا ناخوشگوار فرض بھی ڈیوٹی میں شامل ہو گیا۔ ذاتی طور پر میجر جنرل خالد بشیر ہنس مکھ اور ماتحت عملے کی فلاح و بہبود کو اہمیت دینے والی شخصیت تھے ۔ ذاتی پروٹوکول کے حوالے سے ضوابط کے کٹر پیروکار تھے ۔ اُن کی سادگی ہمارے لئے بیک وقت اطمینان اور تفاخر کا باعث تھی۔ اُنہوں نے بلند آہنگ کے ساتھ کبھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی‘ البتہ توقعات سے کم کارکردگی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے تھے ۔ میجر جنرل خالد بشیر کی کمان میں کسی قسم کی رعایت کو دخل نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تعلقات عامہ کی سوجھ بوجھ بڑھ رہی تھی ۔ آغاز میں صحافی دوستوں کی رات گئے ٹیلی فون کالوں کو نظر انداز کرتے تھے لیکن جب اُنہیں باور کرایا گیا کہ یہ دوست ہی آئی ایس پی آر کا قیمتی اثاثہ ہیں تو اُنہوں نے میڈیا کے حوالے سے تعلقات عامہ کا مہینوں کا سفر دنوں میں طے کر لیا۔
میجر جنرل خالد بشیر کی سربراہی میں عوامی جمہوریہ چین کا سفر ایک یادگار اور منفرد تجربہ تھا۔ آئی ایس پی آر کے تین رکنی وفد کا مقصد پیپلز لبریشن آرمی کے میڈیا ڈویژن کا مطالعہ تھا۔ وفد کے تیسرے رکن کیپٹن (اب کرنل ) شاہد عباس کرمانی تھے۔ بیجنگ پہنچے تو پی ایل اے پیپلز لبریشن آرمی کی وردیوں میں ملبوس چاق و چوبند میزبانوں کی گرمجوشی نے دل موہ لیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس اہم سفر کے دوران مجھے دو مرتبہ اپنے نرم خو میجر جنرل کی شدید ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا ہو گا۔ پہلے چند روز معمول کی مصروفیات اور ''مشترکہ دلچسپی‘‘ کے اُمور پر بات چیت میں صرف ہوئے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے میڈیا اُمور کے ہیڈ بھی میجر جنرل تھے ۔ اُنہوں نے صاف صاف بتایا کہ ہم پبلک ریلیشنز ( پی آر) کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے۔ پی ایل اے میں میرا عہدہ چیف آف پروپیگنڈا ہے اور میں پوری تندہی سے اپنے فرائض ادا کرتا ہوں ۔ پی ایل اے کے بہادر سولجرز کے لئے علیحدہ اخبار، ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو ہیں ۔ اس کے علاوہ فلمسازی کا علیحدہ شعبہ ہے ۔ چیف آف پروپیگنڈا نے روانی میں ایک اہم جملہ کہا کہ میں اپنے سولجرز کو ناشتے میں ''آرمی ڈیلی‘‘ پیش کرتا ہوں۔ پارٹی کا اخبار ''پیپلزڈیلی‘‘ بعد میں آتا ہے ۔
میٹنگ کے بعد ہم کافی دیر تک ''پیپلز ڈیلی ‘‘اور ''آرمی ڈیلی‘‘ کے درمیان حد فاصل تلاش کرتے رہے ۔ یہ بے سود کشمکش پاکستان واپسی کے بعد بھی جاری رہی ۔ وطن عزیز کے حوالے سے تجویز چھان پھٹک کے بعد آگے بڑھائی لیکن شاید اُس زمانے کی ہائی کمان مطمئن نہیں تھی۔ لہٰذا عسکری اخبار کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور ہفت روزہ ہلال پر ہی ''قناعت‘‘ جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ بیجنگ سے ایک اور شہر کا سفر درپیش تھا۔ جہاز ایک گھنٹے سے زائد فضا میں پرواز کرتا رہا۔ میں دلآویز ذائقے کی حامل سبز چائے کے نامعلوم کتنے کپ انڈیل گیا۔ منزل پر پہنچے تو جہاز کی سیڑھیوں کے ساتھ ہی گاڑیاں موجود تھیں اور ہم عسکری اعزاز کے ساتھ ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے ۔ اچانک مجھے گردوں پر دباؤمحسوس ہوا۔ اُدھر پی ایل اے کے میزبان افسر نے بتایا کہ قریباً پینتالیس منٹ تک ہیڈ کوارٹر پہنچے کا امکان ہے ۔ کرب میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ گاڑی رُکتے ہی میں نے واش روم کا رُخ کیا۔ یہ اور بات کہ چینی اہلکار پہلے میس کے کچن میں لے گیا۔ وہاں سے بمشکل منطقی انجام تک پہنچے ۔ استقبالیہ تقریب میں میجر جنرل خالد بشیر نے مجھے غیر حاضر پایا ۔ میزبان افسر کو بھی پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کی ''گمشدگی‘‘ پر تشویش ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعدکیپٹن شاہد نے پیغام دیا کہ ڈی جی آپ کو اپنے کمرہ میں یاد کر رہے ہیں ۔ میں اور شاہد کمرے میں داخل ہوئے تو ڈی جی نے مجھے بے نقط سنانا شروع کر دیں ۔ میں نے ''ذاتی مشکل‘‘ پر روشنی ڈالی تو مزید ناراض ہوئے: ''ہم سرکاری دورے پر ہیں پکنک پر نہیں آئے‘ دورے کا ہر ایونٹ بے حد اہم ہے‘ مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی‘ ذاتی اُمور کسی صورت سرکاری ڈیوٹی پر حاوی نہیں ہونے چاہئیں‘‘۔ میجر جنرل خالد بشیر کا یہ روپ آغاز میں نا پسندیدہ سجھائی دیا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد گھن گرج کے ساتھ ادا کئے گئے الفاظ کی حقیقت اور سچائی روشن ہو گئی۔
چین میں ہمارے قیام کے دوران ایک تاریخی مسجدکا دورہ بھی شامل تھا۔ میجر جنرل خالد بشیر نے مجھے واضح ہدایت کی کہ مسجد کے امام صاحب کے لئے تحائف ہمراہ ہونے چاہئیں۔ میں نے شاید کیپٹن شاہد کو یاد دہانی کے لئے کہہ دیا ہو گا۔ ہم دونوں تحائف جو پاکستانی ٹریک سوٹ اور لیدر آئیٹم پر مشتمل تھے‘ کمرہ میں بھول گئے ۔ مسجد کے قریب پروٹوکول کے ساتھ پہنچے۔ میجر جنرل خالد بشیر نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا کہ امام صاحب کے لئے تحائف کہاں ہیں ؟ میں نے کیپٹن شاہد کی جانب دیکھا ۔ ''تحائف ندارد‘‘ چہروں پر لکھا تھا۔ اب میجر جنرل خالد بشیر کا سارا غصہ اُن کی آنکھوں میں اُتر آیا تھا اور یہ آنکھیں صرف مجھے گھور رہی تھیں ۔ میرا سر چکرانے لگا۔ یقینا تساہل اور غیر ذمہ داری کی انتہا تھی۔ ہم بظاہر مسکراتے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہوئے ۔ خوبصورت طرز تعمیر کی حامل عالیشان مسجد چین میں مسلمانوں کے پُروقار ماضی کی یاد دلا رہی تھی۔ نوافل کی ادائیگی کے دوران مجھے خیال آیا کہ میری جیب میں پنج سورہ اور تسبیح موجود ہیں ‘جو ایک دوست نے عمرہ سے واپسی کے بعد مجھے کراچی میں پیش کیے تھے۔ مسجد دیکھنے کے بعد امام صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ سبز چائے کا دورہ شروع ہوا ۔ امام صاحب نے تحائف پیش کئے تھے ۔ میں نے پنج سورہ اور تسبیح ڈی جی صاحب کے حوالے کیں کہ امام صاحب کو پیش کر دیں ۔ اس موقع پر امام صاحب کومترجم کے ذریعے بتایا گیا کہ یہ مدینہ منورہ سے آئی ہیں ۔ یہ سنتے ہی امام صاحب نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ کبھی وہ تسبیح کو بوسہ دیتے تو کبھی پنج سورہ آنکھوں سے لگاتے ۔ پی ایل اے کے ایک ''حساس‘‘ افسر نے فوری طور پر دونوں کو ٹٹولا ، دیکھا اور پھر امام صاحب کو واپس کر دیا۔ ان رقت انگیز لمحات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ مسجد سے ہم واپس ہوٹل پہنچے تو کیپٹن شاہد کی آواز آئی کہ سر! ڈی جی صاحب آپ کو کمرہ میں یاد کر رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ آج خیر نہیں ۔ سابق کوتاہی کی معافی مل گئی تھی لیکن اب ممکن نہیں۔ ڈی جی کی سرخ آنکھیں اور چہرے پر امڈتا ہوا غصہ یاد آگیا ۔کمرہ میں داخل ہوا تو میجر جنرل خالد بشیر کی آنکھیں نمناک تھیں۔ میں اور کیپٹن شاہد خاموش کھڑے تھے ۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ۔ اور توقف کے بعد کہا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آج کیا حکمت تھی۔ ہماری ایک غلطی عظیم یاد گار لمحے میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ ہم امام صاحب کو ٹریک سوٹ دیتے تو اُنہوں نے ہم پر ہنسنا تھا۔ اب تمہارے تحفے نے سارا ماحول تبدیل کر دیا۔ مجھے سچ سچ بتاؤ کہ یہ تسبیح اور پنج سورہ مدینہ منورہ سے آئے ہیں یا تم نے حسب ِ ،معمول پی آر دکھائی ہے ۔
میں نے حلفاً بتایا کہ کراچی میں میرے ایک دوست نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد تحفتاً پیش کیا تھا ۔ یہ سن کر اُنہیں اطمینان ہو گیا۔ میجر جنرل خالد بشیر آئی ایس پی آر میں ایک برس دو ماہ تعینات رہے ۔ اُس کے بعد مختلف حساس ذمہ داریاں انجام دیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مصروف رہے ۔ قریباََ ایک برس سے کینسر کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے !