سپریم کورٹ کے عزت مآب جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی ‘‘مرنجاں مرنج'' رپورٹ کے اثرات خاصے ‘‘آگ بگولہ'' قسم کے ہیں ۔ ایک جانب ن لیگ کے متوالے ہیں جو فاتحانہ انداز میں آپے سے باہر ہو رہے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ برسوں کے بعد مستند خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ شیروں کو جلد نارمل نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ رپورٹ کو چوم چوم کر تار تار کر دیں گے ۔ اگر یہ حادثہ رونما ہو گیا تو دوبارہ صفحات کو یکجا کرنا بہت دشوار ہو گا۔ ن لیگ کے سیاسی اتحادی اور ابلاغی کارندے دو ہاتھ اور آگے ہیں ۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ نواز شریف صاحب ‘‘دھرنا''تحریک کی عدالتی ناکامی کے بعد کہیں عمران خان صاحب سے وہ سلوک نہ کر دیں جو ایک بادشاہ کے ساتھ دوسرا بادشاہ کرتا ہے ۔ اگر دوسرا بادشاہ بھی پہلے بادشاہ کے ساتھ مسند نشین ہو گیا تو اُن کا کیا ہو گا جو میاں نواز شریف صاحب کو ‘‘دھرنا تحریک '' میں پوشیدہ سازش سے دن رات خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ سیاست کے بھی عجب رنگ ہیں۔ دھرنے کے دوران ‘‘گیند'' میاں نواز شریف صاحب کے کورٹ میں تھی کہ اُن سے استعفے ٰ کا مطالبہ کیا جا رہاتھا ۔ اب سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی معتبر رائے زنی کے بعد پارلیمان کے روشن مستقبل کی کنجی میاں نواز شریف صاحب کے پاس آگئی ہے ۔ اس لحاظ سے دھرنے میں اچھل کود اور اب عدالتی کمیشن کی رپورٹ کا سب سے اہم سیاسی فائدہ وزیر اعظم کو حاصل ہوا ہے ۔ اُنہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ جمہوری سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ تاہم اونٹ کی کروٹ کا انحصار شیر کے مزاج گرامی پر ہے ۔ ظاہر ہے کہ شیر کی کروٹ سے زیادہ اُس کا مزاج جنگل کی کیفیت کا تعین کرتا ہے ۔
وطن عزیز کوخوشحال دیکھنے کے خواہشمندپاکستانی آرزومند ہیں کہ میاں نواز شریف حالیہ سیاسی اور عدالتی کامیابی کے نتائج کا مدبرانہ انداز میں سامنا کریں اور کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں ہو نی چاہیے جس سے باہمی رسہ کشی کو نئی اٹھان مل جائے ۔ کالعدم دھرنے کے محرکات اور شخصیات کے بارے میں ریسرچ اور تحقیقات وغیرہ کا بارِ گراں یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے سیاسیات اور ابلاغیات کے حوالے کر دیا جائے ۔ بصورت دیگر ‘‘ آبیل مجھے مار'' کا محاورہ درست ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ اصول تحریک انصاف کے قائد عمران خان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اُنہوں نے 2013 ء کے عام انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلی اور تسلیم شدہ بے ضابطگیوں کے خلاف مثالی مہم کی قیادت کی اور عوام کو انتخابی عمل میں پوشیدہ غیر جمہوری جہتوں سے آگاہ کیا۔ دھرنے کے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنر ل راحیل شریف سے عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے ملاقاتیں کی تھیں ۔ اب چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن نے عام انتخابات کی شفافیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ سیاسی معاملات میں دو ''مقتدر‘‘ چیف صاحبان نے اپنے وجود کا احساس دلایا ہے ۔ یہ صورت حا ل سیاسی قائدین کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے ۔ وطن عزیز کی سیاست میں غیر سیاسی عناصر اور اداروں کو ثالث تسلیم کرنے کا رجحان روز ِ اول سے ہے ۔ بُلند آہنگ سیاسی قائدین کی دیکھا دیکھی مسائل کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام بھی اُنہیں نجات دہندہ تصور کرتے ہیں ۔ کم از کم 1970ء کے مثالی انتخابات سے یہ منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے ۔ 1956ء کے آئین کی موجودگی کے باوجود آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو مرکزی کابینہ کے اجلاس میں باقاعدہ مدعو کیا جاتا تھا۔ بعدازاں اُنہیں مستقل رُکن کی حیثیت دے دی گئی۔ آج بھی اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) اور اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں میں سیاستدان ہنسی خوشی اپنا پیٹ ننگا کرنے کی جستجو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا، چوبیس گھنٹے کے بعد خبر اور مدھم تصویر شائع ہوتی تھی ۔ یوں رائے عامہ استوار ہونے میں عرصہ لگتا تھا۔ اب الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ پر عزم اور حواس باختہ شخصیات یکساں انداز میں عوام کے سامنے چال چلن کے ساتھ پیش ہوتے ہیں۔ کسی کی چال دل میں اترتی ہے تو کوئی اپنے چلن سے عوام کی آنکھوں سے اُتر جاتا ہے ۔یہ صورت حال اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ عوام کی نمائندگی کے طریقہ کار میں کسی نے نقب لگائی ہے ۔ انتخابی عمل کو ذاتی مرضی کے مرض کو پروان چڑھانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے کے مترادف اقتدار سے محبت کو زندگی اور موت کامسئلہ بنایا جاتا ہے ۔ یاد دہانی کے لئے معذرت ! 1970ء میں رسوائی اورہزیمت کی بنیاد اقتدار سے محبت تھی۔ مثالی انتخابات میں شیخ مجیب الر حمن نے ایک سو ساٹھ سے زائد نشستیں حاصل کیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے امیدوار اکیاسی حلقوں میں کامیاب ہوئے تھے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دردناک تاریخ کے سیاہ باب ہیں۔ بھٹو صاحب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر رضا مند نہیں تھے ۔ مجیب الرحمن لاکھوں کے مجمع میں آگ بگولہ ہوتے رہے ۔ مغربی پاکستان بظاہر پُر سکون تھا لیکن مشرقی پاکستان میں صورتحال بتد ریج کنٹرول سے باہر ہو گئی اور ایک روز ملک دو لخت ہو گیا۔ دونوں سیاسی قائدین اپنے اپنے ''زیر اثر‘‘ ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں مکمل پروٹو کول کے ساتھ وزیر اعظم بن گئے ۔ یہ ''انتظام‘‘ خون خرابے اور رسوائی کے بغیر بھی ممکن تھا۔ فوج حسب ِ معمول متحدہ پاکستان کو حالت ِ نزع میں ابتدائی طبی امداد مہیا کرنے کی ''مجرم‘‘ ٹھہری اور اس حوالے سے آج تک یک طرفہ الزامات کی زد میں ہے ۔1977ء میں دوبارہ قومی انتخابات کا غلغلہ ہوا۔ عوام نے بھی سڑکوں پر اپنے قائدین کو مایوس نہیں کیا۔ مسئلہ عوامی نمائندگی میں دن دہاڑے نقب زنی کا تھا۔ بات سیاست سے عدالت اور وہاں سے مارشل لا ٔ تک جا پہنچی ۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حُکم پر تین شہروں میں مارشل لا نافذ ہوا۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل محمد ضیا الحق کے احکامات کے تحت پورا مُلک مار شل لا کی لپیٹ میں تھا ۔صفر جمع صفر ۔ جمہوریت ایک بار پھر سیاسی قائدین کی انا اور کج فہمی کا شکار ہو گئی۔ سپریم کورٹ نے معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں سزائے موت کا حکم دیا ۔ حکومت ِ وقت نے حکم پر عملدر آمد کر کے انصاف کا بول بالا کر دیا۔دکھ کی بات ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے کسی ایک فریق کی سیاسی پیروی کرنے پر بضد رہے ۔
2013ء کے انتخابات کو دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے ، لیکن ابھی تک انتخابات وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں، عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔ نزاع اور نزع میں صرف الف کا فرق ہے ، نزاعی اختلافات کسی لمحے نزعی بیانات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ غور طلب بات منقسم مینڈیٹ ہے جو مذکورہ انتخابات میں سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے ۔ پنجاب میں یہ ایک جماعت برسوں سے براجمان ہے ۔ سندھ میں دیہی اور شہری ووٹ کی سیاسی تقسیم اب حقیقت بن چکی ہے ۔ صوبہ پختونخوا میں ایک نوخیز جماعت گُل کھلا رہی ہے ۔ بلوچستان کا سیاسی لحاظ سے کوئی پرسان حال نہیں۔ پنجاب کے بل بوتے پر کامیاب وفاق کے حکمران شائداس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ زمینی حقائق جغرافیائی تبدیلیوں کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ آج کل کا سیاسی ڈھانچہ دیکھیں تو صدر، وزیر اعظم، چیئر مین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے اہم ترین آئینی عہدے صرف کراچی اور لاہور تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال صرف اور صرف ہمارے ‘‘ دور اندیش '' سیاستدانوں کی ‘‘ مدبرانہ'' سیاسی حکمت عملی کا نچوڑ ہے۔
اب یہ سلسلہ منظقی انجام تک پہنچنا چاہئے ، تمام سیاسی جماعتوں کو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آئینہ تصور کرتے ہوئے اپنا اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے ۔ رپورٹ میں بین السطور بہت کچھ تحریر ہے ۔مناسب ہوگا کہ عدالتی کمیشن کی تاریخی رپورٹ کا مستند اردو ترجمہ شائع کیا جائے۔ فی الحال انگریزی میں دستاویزات محدود حلقے تک محدود ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج عزت مآب جسٹس جواد خواجہ حال ہی میں اردو کے سرکاری نفاذ پر زور دے چکے ہیں۔ رپورٹ کے اردو ترجمے سے وطن عزیز کے شہریوں کی کثیر تعداد فیض یاب ہو گی اور ایسے تمام ووٹرز بھی جن کے انتظار میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی بیلٹ پیپرز شائع کیے گئے ۔ حالانکہ ٹرن آوٹ پچاس فیصد سے زائد نہیں تھا۔ اگر جج صاحبان کو باہمی رضامندی سے پیش کئے گئے ٹرم آف ریفرنس تک محدود نہ کیاجاتا تو 2013ء کے انتخابات کے تمام سیاسی فریق عوام کا دوبارہ سامنا کرنے میں بے حد دشواری اور ا ذیت کا سامنا کرتے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ‘‘زخمی'' تحریک انصاف کس طرز عمل کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ حتمی جیت کا تاج سر پر سجانے والے فتح کا جشن کس انداز میں جاری رکھتے ہیں۔ اور اگر ن لیگ کے شیروں نے اپنے بیانات اور سیاسی اتحادیوں کی تلخ نوائی کے ذریعے کالعدم دھرنے کو زندہ رکھا تو یہ رویہ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کاایک اور دل خراش باب رقم کرے گا۔