کیانی، پاشا اور ظہیرالاسلام

شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو کہ ن لیگ اور اُس کے حاضر اتحادیوںکوکالعدم دھرنے کے مبینہ سرپرستوں کی یاد نہ ستائے۔ ابھی کل کی بات ہے، ایک نجی چینل پر ن لیگ کے صف اوّل کے ترجمان آئی ایس آئی کے دو سابق سر براہوں کا نام لے کر ٹاک شو میں تحریک انصاف کے رہنما کو لتاڑ رہے تھے۔تحریک انصاف والے نے قسمیں اُٹھائیں لیکن ن لیگ کے ترجمان کا اصرار جاری رہا تو انہوں نے دھرنا کمیشن کی تجویز پیش کر دی۔ ن لیگ والے کا فاتحانہ جواب تھا کہ فکر نہ کریں آپ کی خواہش جلد پوری کر دی جائے گی۔تحریک انصاف کے کالعدم دھرنے کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کے نام نمایاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس میں وزیر پانی و بجلی و دفاع خواجہ آصف پیش پیش ہیں جنہوں نے اپنی ہی وزارت کے دو سابق سینیئر افسروں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ان کا یہ انداز برسوں یاد رکھا جائے گا۔ 
پاک فوج اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہوںکے حوالے سے سیاسی اور صحافتی کتر بیونت ن لیگ کے دور میں تقویت حاصل کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ چھ برس تک چیف آف آرمی سٹاف کے فرائض انجام دینے والی شخصیت کا حوالہ معتبر اور مسحورکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے نیب نے جنرل (ر)کیانی کے دو برادران عزیزکے حوالے سے بعض ناگفتہ اُمورکوکرپشن مکائو مہم میں شامل کر لیا ہے۔ادھر سپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق نے ریلوے کرپشن کے حوالے سے تفتیش کی تفصیلات طلب کی ہیں۔اس کیس میں بھی مبینہ طور پر دو ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل صاحبان کے نام شامل ہیں۔ 
بے لاگ احتساب بُری بات نہیں، اس عمل سے ریاست کا ڈھانچہ مضبوط ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے مخلصانہ عمل کو عوام ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اصل بات نیت کی ہے، اُس میں سیاسی کھوٹ کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔تکلیف دہ امر یک طرفہ میڈیا ٹرائل اورکسی ایک شخص کو بنیاد بناکر ادارے کوٹارگٹ کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ راج نیتی میں بے چارہ عسکری ایک اوسط درجے کے سیاست کارکا سامنا نہیں کر سکتا، کُجا ریٹائرڈ عسکری ، جو اپنے صحافتی دفاع کی اہلیت اور مطلوبہ ذرائع سے عموماً نابلد ہوتا ہے۔ہرکوئی لیفٹینٹ جنرل (ر) حمیدگل ایسی خداداد صلاحتیوں کا حامل نہیں ہوتا جو ریٹائرڈ زندگی میں بھی حاضر سروس کے دور سے زیادہ توانا اور پُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔جنرل (ر) اشفاق پرویزکیانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیرالاسلام فی الحال چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ورنہ کیا اُنہیں بات کرنی نہیں آتی!
جمہوری دور میں بعض سیاستدان اپنا ظرف ظاہرکرنے میں تاخیر سے کام نہیں لیتے، خاص طور سے ن لیگ کے قائدین جن کی نظر میں جنرل ضیاء الحق کے بعدکوئی جچا ہی نہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے لے کر جنرل اشفاق پرویزکیانی تک ''ظروف کاری‘‘ کی کہانی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اس حوالے سے متاثر کن ریکارڈ کی حامل نہیں ہے۔اُس کے بانی ذوالفقار علی بھٹوکا پاک فوج کے آخری کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن سے حُسن سلوک عسکری نصاب کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ بھٹو صاحب فوج کی مدد سے اکثریتی پارٹی کے قائد شیخ مجیب الرحمن کو اپنے راستے سے ہٹا کر سابق مغربی پاکستان کے طاقتور حکمران بن گئے تھے۔ بھارت سے شملہ معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں بھارت کی قید سے نوے ہزار قیدیوں کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ان میں لڑاکا فوجی پینتیس ہزارکے لگ بھگ تھے۔وطن واپس آنے والے فوجیوں میں بعض افسر یہ سمجھتے تھے کہ سانحہ ڈھاکہ کی براہ راست ذمہ داری جنرل یحیٰ خاں، شیخ مجیب الرحمن اورذوالفقار علی بھٹو پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا ان کا قومی احتساب ہونا چاہیے۔اس دوران شیخ مجیب الرحمن کو رہاکر دیا گیا۔جنرل یحییٰ خان مفلوج ہوکر بستر سے لگ گئے۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو پوری آب و تاب سے نمایاں تھے۔سقوط ڈھاکہ سے دل برداشتہ بعض افسر بھٹو صاحب کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے منصوبے بنانے لگے۔یہ افسر جلد پکڑے گئے اور فوجی قواعد و ضوابط کے مطابق اٹک قلعے میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوگیا۔اس فوجی عدالت کے سربراہ میجر جنرل (بعد میں جنرل اور صدرِ پاکستان ) ضیا ء الحق تھے۔ یہ1973-74ء کا ذکر ہے۔ آئی ایس پی آرکی جانب سے میں روزانہ راولپنڈی سے اٹک قلعے جایا کرتا تھا جہاں یہ مقدمہ چل رہا تھا۔ سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے محمد عُزیر صاحب اور نجی نیوز ایجنسی پی پی آئی کے رمضان عادل صاحب کو قلعے میں ہی رہائش دی گئی تھی۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ خبریں تیارکرتے تھے۔ میری ڈیوٹی میں معزز صحافیوں کی تیارکردہ خبروںکو مطالعے کے بعد فوجی عدالت کے ایک مقررہ رکن سے منظورکرانا شامل تھا۔ یہ رُکن عموماًََ بریگیڈیر جہاں داد خان ہوا کرتے تھے جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک سے ریٹائر ہوئے اور الشفا آئی ہاسپیٹل قائم کیا۔ میں ڈرافٹ نیوز لے کر مغرب کے قریب آئی ایس پی آر واپس پہنچتا جہاں ادارے کے سربراہ بریگیڈیر فضل الرحمن اُس کی مزید نوک پلک سنوارتے تھے۔ ڈائرکٹر آئی ایس پی آر سے'' اوکے‘‘ کرانے کے بعد پی آئی ڈی کے پرنسپل انفرمیشن آفیسر افضال زیدی صاحب کے آفس کا رُخ کرتا جو راولپنڈی میں آر اے بازار کے قریب واقع تھا۔ اُن کی ذمہ داری یہ خبریں پرائم منسٹر ہائوس ارسال کرنا تھی۔ایک دن کے وقفے کے بعد یہ خبر اخبارات کو جاری کرنے کاحکم تھا۔ استغاثہ اور صفائی کے دلائل پوری تفصیل سے اخبارات میں شائع ہوتے جنہیں لوگ بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر خبریں شائع ہونے سے ناکام بغاوت کے شرکاکو فائدہ ہو رہا تھا،ان کے خیالات سے عوام مستفید ہو رہے تھے۔
کمرہ عدالت کا منظر دلچسپ تھا۔ ملزمان کی وکالت کرنے والوں میں جسٹس (ر) منظور قادر، ایس ایم ظفر اوراعتزاز احسن سمیت چوٹی کے دیگر وکلا شامل تھے۔اکثر فوجی عدالت کے سربراہ میجر جنرل ضیا ء الحق اور وکلا کے درمیان ایک دوسرے کو تعظیم اور احترام دینے کا''مقابلہ‘‘ شروع ہو جاتا۔ وکلا فوجی عدالت کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک مرتبہ ''سر‘‘کہتے تو جواباًََ میجر جنرل محمد ضیاء الحق اُنہیں دو بار ''سر‘‘کہا کرتے، خاص طور سے منظور قادر کے دلائل ایک طالب علم کے طور پر نوٹ کیا کرتے تھے۔ 
پیپلز پارٹی، ناکام بغاوت میں شریک فوجی افسروںکے نام اور متوقع کارنامے اخبارات میں نمایاں کرنے پر کمر بستہ تھی۔جب عدالت نے کڑی سزائیں دیں تو خوب تشہیرکی گئی جسے عوام اور فوج میں اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیا۔ جو کام ڈھول پیٹے بغیر مکمل کیا جا سکتا تھا اُسے دھمال اور لڈی کے ذریعے خوب نمایاںکیاگیا۔ فوج اپنی جگہ پر موجود رہی۔ سزا یافتہ فوجی بھٹو صاحب کی رخصتی کے بعد رہا ہوگئے۔کچھ بیرون ِملک سدھار گئے ، چند ایک نے سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ ایک دو وزیر بھی بنے۔ میرے خیال میں اٹک سازش کیس کی روزانہ کی بنیاد پر تشہیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔
اب ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ جنرل محمد ضیا ء الحق کی حکمرانی
تھی۔ یہ 1984ء کا ذکرہے۔ میں آئی ایس پی آر لاہور میں تعینات تھا۔ ایک روز اچانک لیفٹیننٹ جنرل اختر عبد الرحمن کی کال آئی ۔ براہ راست ٹیلی فون پر مخاطب تھے۔ حکم ملاکہ آئی ایس آئی کے لاہور آفس میں رپورٹ کروں۔ ہانپتاکانپتا پہنچا تو سیدھا جنرل اختر عبد الرحمن کے سامنے پیش کر دیاگیا۔اُنہوں نے سامنے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ تم بیٹھے رہو!کمرے سے باہر نہیں جانا، صرف دیکھتے اور سنتے جائو۔ میرے سامنے باوردی افسر تفتیش کے لئے لائے جا رہے تھے۔ پتا چلاکہ آرمی اور ایئر فورس کے کچھ افسرگرفتار کئے گئے ہیں جن کے پیپلز پارٹی سے''خفیہ‘‘ رابطے تھے اور وہ''گڑ بڑ‘‘ کا پروگرام بنا رہے تھے۔ قصہ مختصرِ سہ پہر تک پکڑ دھکڑ جاری رہی اور''بغاوت‘‘ ناکام ہوگئی۔ جنر ل اختر عبدالرحمن حسب ِ توقع پی ٹی وی اور اخبارات کے لئے ایک بڑی خبرکی توقع کر رہے تھے۔ خبر تیارکی گئی لیکن میں نے مودبانہ درخواست کی کہ اس خبر سے یہ تاثر جائے گا کہ جنرل ضیاء الحق کی فوج پرگرفت کمزور ہوگئی ہے، لہذا اشاعت کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔اب ایک اچھے کام کے ذریعے عوام اور افواج کو پریشان کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ ڈائرکٹر آئی ایس پی آر بریگیڈیر تفضل حسین صدیقی اور جنرل ضیاء الحق کے پریس سیکرٹری کرنل ( بعد میں بریگیڈیر ) صدیق سالک سے بذریعہ ٹیلی فون رائے لی گئی۔ انہوں نے بھی خبرکی فوری اشاعت کی مخالفت کی۔ اس صورت حال کے بعد جنرل اختر عبد الرحمن نے مجھ سے الوادعی مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر والوں کے دماغ ایک جیسے ہوتے ہیں۔اُنہوں نے والہانہ انداز میں شاباش بھی دی۔ شاید و ہ بھی معاملے کی تہ تک پہنچ گئے تھے۔ مذکورہ واقعات کی روشنی میں ن لیگ اور اُس کے اتحادیوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کالعدم دھرنے کے حوالے سے شجاع پاشا اور ظہیر الاسلام کی''گردان‘‘ اب ترک کر دیں۔اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں