جنگ ِ ستمبر کے سترہ دن وطن عزیز کے ہر مردو زن ، بچے بوڑھے اور جوان کو عجب حوصلہ عطا کر گئے ۔ پچاس برس گزرنے کے بعد بھی یہ حوصلہ اور جذبہ روز اول کی مانند تابندہ ہے ۔ اس کیفیت کا اظہار چھ ستمبر کو جنگ ستمبر 1965ء کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی تقریر کے ہر فقرے میں موجود تھا‘ خاص طور پر جب اُنہوں نے بلند آہنگ کے ساتھ واضح کیا کہ ''ہم تیار ہیں‘‘ تو ہمہ تن گوش پاکستانیوں کی کیفیت دیدنی تھی۔ بھارت روایتی، غیر روایتی، ہاٹ سٹارٹ یا کولڈ سٹارٹ وغیرہ جنگ ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے تو اپنا شوق پورا کر لے ، پاکستانی قوم کو چھ ستمبر 1965ء سے بڑھ کر تیار پائے گا۔ یہ درست ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے حریف سے مقابلہ جہد مسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک عام شخص کے لئے یہ الفاظ کہہ دینا شاید زیادہ مشکل نہ ہو لیکن آرمی چیف کی جانب سے دو ٹوک انداز میں ''ہم تیار ہیں‘‘ کا اعلان درخشاں عسکری روایات کو روشن مستقبل سے مربوط کرنے کے عزم کا اظہار ہے ۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پاک افواج نے گزشتہ پچاس برس میں طویل سفر طے کیا ہے ۔ ستمبر 1965ء کے بعد دسمبر 1971ء کا سامنا بھی کیا ۔ اقوام کی زندگی میں صرف فتح اور نصرت کے ابواب نہیں ہوتے ۔ تاریخ میں نا قابل ِ تصور سیاسی عوامل اور ناموافق عسکری نتائج کے اسباق بھی درج ہیں ۔ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں جنگ ِ بدر کے بعد جنگ ِ اُحد کا معرکہ درپیش تھا۔ دونوں جنگوں کے نتائج مختلف تھے‘ لہٰذا جنگ ِ اُحد کے بعد ''خندق‘‘ کی تیاری کی گئی ۔ جنگ ِ خندق میں مسلمانوں نے بہترین حربی تیاری اور بر تر حکمت عملی سے دشمن کو اُحد کے واقعات دہرانے کی اجازت نہیں دی اور اسے فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ مسلمانوں کے مقابلے پر دشمن کے لشکر اور جنگی سازو سامان ہر جنگ میں زیادہ رہے ہیں۔ یہ عنصر خوف ، دہشت اور بے یقینی کو جنم دیتا ہے ۔ ایسے ماحول میں بے لوث قومی قیادت اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔ تعداد اور وسائل میں کمی کے باوجود مثالی جذبے اور بر تر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر دشمن کی برتری کو کامیابی سے چیلنج کیا جاتا ہے ۔ جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے پر کامیاب ترین دفاعِ وطن ہو یا جنگ ِ اکہتر کے ناقابل ِ تصور منفی نتائج‘ ہر دوصورت میں مستقبل کے لئے غیر معمولی اسباق موجود ہیں جن کی روشنی میں ''خندق‘‘ کے لئے تیاری کا عمل جاری رہنا چاہیے۔''ہم تیار ہیں‘‘ کے اعلان نے واضح کر دیا کہ افواج پاکستان اپنے بنیادی فرائض کی بھرپور انجام دہی پر کار بند ہیں اور اس سلسلے میں کسی رکاوٹ کو خاطر کو نہیں لائیں گی۔ اس عزم کے بعد سب سے اہم مرحلہ ریاست کے تمام ''عناصر ترکیبی ‘‘کا ربطِ باہمی ہے ۔ مقننہ ، عدلیہ ، انتظامیہ اور موجودہ دور میں میڈیا بھی ریاستی عناصر کے اہم جزو ہیں۔ ان عناصر کی دیگر شاخیں بھی ہیں جو انسانی جسم میں رواں لہو کی مانند زندگی کے وجود کی ضمانت ہیں۔
جنگ ستمبر کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر عوام کی والہانہ شرکت اور افواج کے ساتھ یکجہتی کے پُرجوش مظاہروں نے 1965ء کی یاد تازہ کر دی۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے شہر شہر‘ گاؤں گاؤں تقریبات اور محافل ہو رہی ہیں ۔ شہدا کے مزاروں اور یاد گاروں پر عوام کا ہجوم رہتا ہے ۔مسرت اور افتخار کے یہ ناقابل ِ فراموش لمحات چند بد خواہوں کو مسلسل پریشان کر رہے ہیں۔ ابھی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ایک انگریزی اخبار میں اکبر زیدی نامی ایک شخص نے انکشاف کیا کہ 65ء کی جنگ میں پاکستان کو بد ترین شکست ہوئی تھی۔ یہ جملہ اخبار میں تین کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوا۔ میرا خیال تھا کہ شاید موصوف بھارت سے اپنے موقف کے حق میں خاص شواہد لے کر آئے ہیں لیکن اکبر زیدی کے حوالے سے شائع شدہ مواد محض ایک مخصوص ذہنیت کی نمائندگی تھی۔ 1965ء کی جنگ سے متعلق بھارتی اور پاکستانی عسکری کمانڈروں کی لا تعداد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ''بدترین شکست ‘‘کا ''انکشاف‘‘ شاید ہی کسی کتاب میں موجود ہے ۔ سیدھی بات ہے بھارت نے چھ ستمبر کو بین الاقوامی سرحد عبور کر کے لاہور ، سیالکوٹ اور قصور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ لاہور سب سے پہلا نشانہ تھا۔ بھارتیوں کو چند گھنٹے میں شہر کے دلکش مال روڈ تک پہنچنے کی اُمید تھی جو پہلے چوبیس گھنٹے میں ہی خاک میں مل گئی تھی ۔ ایک طالب ِ علم کی حیثیت سے میں نے لاہور میں یہ جنگ بہت قریب سے دیکھی تھی ۔ ہمارا گھر لاہور چھاؤنی میں تھا۔ 6 ستمبر کو علی الصبح فوجی دستے جس انداز میں سرحد کی جانب روانہ ہوئے وہ نقش میرے ذہن میں آج بھی روز اول کی مانند روشن ہیں۔6 ستمبر سے 23ستمبر تک دوبدو اور دست بدست جنگ کے ایسے مناظر تھے جن پر رہتی دنیا تک ہر پاکستانی ناز کر سکتا ہے ۔ سیز فائر کا اعلان ہوا تو لاہور، سیالکوٹ قصور سمیت پاکستان کے تمام شہر چھ ستمبر والی پوزیشن پر موجود تھے ۔ پاک افواج اور عوام نے بھارتی عزائم کو شکست سے دو چار کر دیا تھا۔ پچاس برس گزرنے کے بعد اگر اس کامیابی کا ذکر کیا جائے تو چند عناصر کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وطنِ عزیز کے باشعور عوام ستمبر کے جذبے کو بے حد عزیز رکھتے ہیں اور اس کے خلاف گاہے بگاہے اُبھرنے والی سازشوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ ستمبر کی یادیں آج بھی روشن اور تاباں ہیں ۔ اس حقیقت کا اندازہ چھ ستمبر کی عظیم الشان تقریب میں بھی ہوا جو جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کے سبزہ زار میں روایتی تزک و احتشام کے ساتھ ہوئی ۔ اس موقع پر ہزاروں مہمان موجود تھے اور کروڑوں افراد براہ ِ راست ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے تھے ۔ سب سے اہم مہمان شہیدانِ وطن کے ورثا تھے جو اُن عظیم ہستیوں کی نمائندگی کر رہے تھے جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر ایک قلمکار دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی تقریر ہی اس پروگرام کا حاصل تھی ۔ یہ کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے اس میں خطے میں دیرپا امن کے لئے واضح پیغام اور وطن دشمنوں کو انتباہ ہے کہ اپنی حرکات سے باز آجاؤ ورنہ نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے ۔ فوج نے حتمی فیصلہ کر لیا ہے ۔ آرمی چیف کے دوٹوک اعلان کے بعد شک کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ ''ہم تیار ہیں‘‘ اس اعلان کا عنوان ہے ۔
چلتے چلتے قلمکار دوست نے کہا کہ نئے ملی نغمے زیادہ متاثر کن نہیں تھے ۔ بات آگے بڑھی تو ہم نے گزارش کی کہ پچاسویں سالگرہ کے باعث ہفتے عشرے سے جنگ ستمبر کے لافانی نغمات چھائے ہوئے ہیں ۔ ہر تقریب میں دہرائے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں جدید نغمات کے لئے جگہ حاصل کرنا دشوار ہے ۔ عوامی نغمات قدیم ہوں یا جدید اپنی فوج کے لئے اظہار محبت اور عقیدت کا بے مثال ذریعہ ہے ۔ فوج اور عوام ہمیشہ سے ایک ہیں اور ایک دوسرے کے دل میں بستے ہیں ۔ چند حاسدین اس دائمی رشتے میں نقب نہیں لگا سکتے۔ اُنہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔