’’لکھا کسی اور نے ہے ‘‘

بری فوج کے کورکمانڈرز اور پرنسپل سٹاف آفیسر نے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی رائے نما خبر کا نوٹس لیتے ہوئے اُسے من گھڑت اور قومی سلامتی کے یکسر منافی قرار دیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں منعقدہ کانفرنس میں واضح کیا گیا کہ انگریزی اخبار کو غلط اور بے بنیاد متن برائے اشاعت فراہم کرنے پر انتہائی تشویش ہے۔ بری فوج کی ہائی کمان کا رد ِعمل غیر متوقع نہیں ہے۔ شائع شدہ متن میں افواج اور منسلک انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نشانے پر رکھ کر مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت نے فوری تردید جاری کی اور متن کے مندرجات سے اظہار ِلا تعلقی بھی کیا۔ اس کے علاوہ چند روز کے لئے ''ڈان‘‘ کے رپورٹر سیرل ایلمنڈا کو ای سی ایل پر ڈال دیا۔ اس کے بعد جُملہ صحافی تنظیمیں آزادی ِاظہار کے پرچم تلے جمع ہو گئیں۔ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے وفود نے وزیر ِداخلہ چوہدری نثار علی خان سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ عامل صحافیوں نے اپنے ساتھی کے لئے جد و جہد کا عندیہ دیا۔ یہ سب کچھ ایک خاص انداز میں رونما ہو رہا ہے ۔ وزیر ِداخلہ نے توقعات کے مطابق پابندی ختم کر دی ہے۔ اخبار میں شائع ہونے والے متن کے مُوجد کا پتا لگانے کے لئے حکومتی ذرائع متحرک ہیں۔ اخبار کے ایڈیٹر نے شائع ہونے والے مواد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قارئین کو آگاہ کیا کہ متن کو خبر کی صورت میں شائع کرنے سے قبل تمام دستیاب ذرائع سے''کراس چیک‘‘ بھی کیا گیا تھا۔ 
''ڈان‘‘ میں شائع ہونے والی مذکورہ خبر پر جو ردِ عمل سامنے آیا، اُس نے ایک اہم حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ ''پرنٹ میڈیا‘‘ ابھی مردہ گھوڑا نہیں ہے۔ وطن ِعزیز میں ایک عرصے سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی بے محابہ یلغار کے بعد ''پرنٹ میڈیا‘‘ کا تقابل ریڈیو پاکستان سے کیا جا رہا تھا۔ یہ گفتگو عام سُنی جاتی ہے کہ ریڈیوکی خبریں اب کون سنتا ہے، اخبارات کے دن بھی گنے چنے ہیں، اب ویب کا زمانہ ہے، الیکٹر نک میڈیا کا جادوگھرگھر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس منظر نامے کے باوجود ایک اخبار میں شائع ہونے والی چند سطریں حکومت کے لئے وبال ِجان بن گئی ہیں۔ عسکری قیادت کی قابل ِتحسین حکمت ِعملی اور مثالی کارکردگی پر سوالیہ نشان آویزاں کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ یہ صورت حال میڈیا فیچرزکے لئے بھی باعث ِعزت افزائی نہیں ہے۔ شاید متن کی فراہمی پر مامور سورس منیجرز اپنی کامیابی پر پھولے نہ سما رہے ہوں لیکن دوسری جانب قلم کی کاٹ کے زخموں کو مندمل ہونے میں کافی مدت درکار ہو گی۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ خبرکا سرسری مطالعہ یہ حقیقت واضح کر دیتا ہے کہ یہ ''خیال ہے کسی اور کا، جسے لکھا کسی اور نے ہے‘‘۔ خیر صحافت کا دارومدار متن کی دستیابی پر ہے جسے مشاق رپورٹر اور دور اندیش ایڈیٹر اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیوںکے بل بوتے پر ایسی شاہکار خبر ترتیب دیں جسے پڑھ کر قارئین خبر میں ہی گُم ہو جائیں۔ یہ موضوع بحث بن جائے۔ اخبار کی واہ واہ ہو اور رپورٹر دادِ تحسین کے ڈونگرے سمیٹتا رہے۔ 
مذکورہ خبر ان مراحل سے گزر رہی ہے۔ یہ اخبار کے صفحہ ِاول پر اشاعت پذیر ہوئی تھی جس نے متن میں بجلی بھری ہے۔ معذرت کے ساتھ، خبر میں جوکچھ لکھا ہوا ہے اِس سے ملتے جُلتے خیالات روزانہ رات ٹی وی ٹاک شوز میں ڈنکے کی چوٹ پر پیش کئے جا رہے ہیں۔ کسی ٹاک شوکا مہمان کہیں میانہ روی کی جانب خیالات کا ڈول ڈالتا ہے تو اینکرکی مداخلت ایسی ایڑ لگاتی ہے کہ دوبارہ گرمئی گفتار آخری حد کو چھونے لگتی ہے۔ ٹاک شوز میں بہت کم ''مائنس ایجنڈا‘‘ گفتگو ہوتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت، مسلک یا زیرِ بحث موضوع سے منسلک صاحب رائے مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے، جو اپنے موقف کے حق میں دلائل کے انبار لگاتے ہیں اور ناظرین کے لئے مزید خامہ فرسائی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ابلاغی حُسن ہے۔ 
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی معاشرہ پر تکلیف دہ گرفت سے قبل اخبارات کے مدیر صاحبان ابلاغی حقائق کومُلکی قوانین، اخلاقی ترجیحات اور معاشرتی تقاضوں کے ترازو میں پرکھتے تھے۔ اس کے بعد فراہم کردہ متن خبر کا درجہ حاصل کر کے اشاعت کی منازل طے کرتا تھا۔ صحافت میں مخصوص ایجنڈے کا نفوذ روز ِاول سے ہے۔ بعض اوقات پبلشرز ( مالکان ) یا ایڈیٹر کے علم میں بھی نہیں ہوتا ہے، میڈیا یا فیچرز اِس صورت ِحال پر کڑی نظر رکھتے ہیں ۔ آئی ایس پی آر میں گزرے تیس برس کے دوران ایسے متعدد لمحات پیش آئے کہ جب کسی ناخوشگوار خبر کو اشاعت سے قبل ٹھکانے لگانے پر سینئرز نے اس انداز میں شاباش دی کہ یوں محسوس ہوا کہ اوج ِ ثریا پر پہنچ گئے ہیں لیکن چند روز کے بعد جب بوجوہ ناخوشگوار خبر شائع ہو جاتی تھی تو سینئر کے دفتر میں تحت الثریٰ تلاش کرتے تھے۔ ہمارے دن دفتر میں اور رات اخبارات کے دفاتر میں گزرتے تھے۔ 
چیف آف آرمی سٹاف کی حکومت میں اخبارات میں ناخوشگوار خبریں،کالم اور متن وغیرہ خود بخود ناپید ہو جاتے ہیں۔ مالکان اور مدیر صاحبان''از خود نوٹس‘‘ کے ذریعے ہمارا کام آسان کر دیتے تھے۔ اُس دور کے اپنے صحافتی کچوکے تھے جس کی کاٹ کا اندازہ آئی ایس پی آر کا ''پیدائشی‘‘ افسر ہی لگا سکتا تھا۔ باوردی حکومت کو جمہوریت کا عارضہ لاحق ہوتے ہی ہماری شامت آجاتی تھی۔ آغاز کھٹی میٹھی خبروں اور حاشیہ آرائی سے ہوتا اور انجام میں استعفے ٰ اور دربدری تھی۔ یہ طویل داستان ِ ہے جسے کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ آمریت کے بعد ''انتخابی‘‘ جمہوریت میں افواج کے متعلق عمومی خبریں شائع کرانے کے لئے بھی کئی بار ''سجدہ سہو‘‘ کی نوبت آتی تھی۔ یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل جہانگیر کرامت کے زمانے میں سرکاری ٹی وی کو ہدایت تھی کہ خبر نامے میں عسکری تقریبات کو تیس سیکنڈ سے زیادہ کوریج نہ دی جائے۔ ہم ہر وقت عالم ِبرزخ میں تھے۔ ظاہر ہے کہ ہائی کمان کوتیس سیکنڈ پر راضی کرنا دشوار تھا۔ جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے تو صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اُنہوں نے پرائیویٹ چینلز کو قوم پر''نافذ‘‘ کر کے پاکستان میں منفرد میڈیا دور کا آغازکر دیا۔ 
بات اخبارات سے شروع ہوئی تھی۔ میری ذاتی رائے میں میڈیا منیجرزکو اخبارات سے تعلقات ِ عامہ میں گرم جوشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خبروں اور متن کی اطلاع قبل از اشاعت ہونے سے صحیح خبر قارئین تک پہنچنے میں آسانی رہتی ہے، بصورت ِ دیگر صرف ایک فریق کا نکتہ نظر حاوی رہتا ہے۔ ایڈیٹر کا فرض ہے کہ وہ ناخوشگوار یا متنازعہ متن کی بھرپور سکروٹنی کرے تاکہ متاثرہ فریق کو بھی آزادی اظہار سے مستفید ہونے کا موقع میسر آئے۔ 
مذکورہ خبر کے حوالے سے آرمی کی ہائی کمان کی تشویش پر دورائے نہیں ہو سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس تشویش کو کس کی گود میں ڈالتی ہے۔ کاش یہ سب کچھ رونما نہ ہوتا۔ افواج حالت جنگ میں ہیں،اُنہیں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ اپنی جگہ لیکن افواج کو ذرائع ابلاغ میں متنازعہ کیفیات سے فاصلے پر ہی رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ اس عمل سے عوام میںبھی جمہوری رویے کو فروغ ملے گا لیکن اگر عالمی ایجنڈے کے زیر ِاثرذرائع ابلاغ میں پاک فوج کو مسلسل نشانے پر رکھنا سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے تو اس سے کاروبار سیاست کو زک پہنچنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا جو شاید کسی کے حق میں نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں