چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں کوئٹہ کا ایک اور دورہ کیا ہے۔ بلوچستا ن کے صدر مقام میں یک روزہ قیام کے دوران اُنہوں نے سدرن کمانڈ کے افسروں سے خطاب کیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ریکروٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ آرمی چیف نے اعلیٰ کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ریکروٹس کو اعزازات اورانعامات بھی عطاکیے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پُروقار عسکری تقریب کے شرکاء اور پاس آؤٹ ہونے والے ریکروٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''پاک آرمی کی کمان سنبھالنے کے چند ہی دنوں میں میرا بلوچستان کا یہ تیسرا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ میرے دل کے کتنے قریب ہیں۔ کم لوگوں کو علم ہوگا کہ میر ا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے اور میں اپنے آپ کو فوج میں 'بلوچی‘ کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں‘‘۔
جنرل باجوہ کے بلوچی کہلانے کے اعلان کو بعض اخبارات نے نمایاں انداز میں شائع کیا۔ چند ایک چینلز نے بھی اس فخریہ انکشاف کو اہمیت دی۔ آرمی چیف نے بلوچ رجمنٹ کے حوالے سے یہ تعلق نمایاں کرکے ایک دیرینہ عسکری روایت کی پاسداری کی ہے۔ مقام شکر ہے کہ کسی نے اس حوالے سے منفی خیالات کا اظہار نہیں کیا ورنہ آرمی چیف کے اس اعلان کو موضوع بنا کر کسی نیم مردہ ٹاک شو میں جان پڑسکتی تھی۔ اخبارات میں آرمی چیف کا'بلوچی‘ ہونے پر فخرکی نمایاں خبر دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور مجھے سابق چیف آف سٹاف جنرل آصف نواز (مرحوم ومغفور)کے زمانے کا واقعہ یاد آگیا۔ اسلام آباد/ راولپنڈی سے شائع ہونے والے اخبار کا ایک رپورٹر مدت سے آرمی چیف سے''ون آن ون‘‘ ملاقات کا متمنی تھا۔ آئی ایس پی آر کے افسر کی حیثیت سے میری جنرل آصف نواز کے ساتھ مستقل ڈیوٹی تھی۔ ڈیوٹی کا تقاضا تھا کہ آرمی چیف کی کسی بھی صحافی کے ساتھ آئی ایس پی آر کے افسر کی عدم موجودگی میں ملاقات نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے پالیسی واضح اور دو ٹوک تھی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ رپورٹر آرمی چیف کے حوالے سے ناپسندیدہ، من گھرٹ یا ناقابل اشاعت نوعیت کا بیانیہ شائع نہ کردے۔ کوشش کی جاتی تھی کہ آرمی چیف کی مصروفیات کی خبر، تصویر اور فوٹیج وغیرہ کے لئے صرف آئی ایس پی آرکی مقررہ ٹیم پر ہی انحصار کیا جائے۔ جنرل آصف نواز ذاتی طور پر میڈیا فرینڈلی تھے۔
آرمی چیف تعینات ہونے سے قبل جنرل آصف نواز کورکمانڈکراچی تھے۔ اُس دوران بھی آئی ایس پی آر افسرکی حیثیت سے مجھے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ یوں آرمی چیف کا یہ پہلومیری نظر میں تھا۔ شومئی قسمت سے ایک شام اسلام آباد میں کسی غیر ملکی سفارتخانہ میں تقریب تھی جس میں جنرل آصف نواز بھی مدعو تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ تساہل تھا یا کوئی مصروفیت کہ میں نے تقریب کے اختتام پر تفصیلات معلوم نہیں کیں۔ یوں میڈیا کے حوالے سے پیشہ ورانہ چُوک ہوگئی۔ اگلے روز مدت سے ملاقات کے متمنی رپورٹر کے نام کے ساتھ ایک ذُو معنی خبر صفحہ اوّل کی زینت تھی، جس میں جنرل آصف نواز نے کہا تھا کہ اُنہیں 'پنجابی‘ ہونے پر فخر ہے۔ آرمی چیف کے اظہار تفاخر کی بنیاد پنجاب رجمنٹ تھی جس کی مایہ ناز شیر دل بٹالین کے وہ قابل فخر سپوت تھے۔ یہ اظہار انہونی بات نہیں تھی تاہم جب سیاق وسباق سے ہٹ کر 'پنجابی‘ ہونے پر فخر نمایاں ہوا تو ایوان ہائے سیاست و صحافت میں کئی الائو بھڑک اُٹھے۔ علی الصبح اخبارات سے ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ خبر چونکہ صرف ایک اخبار میں تھی، لہٰذا باقی اخبارات کے مقررہ عسکری رپوٹرز اپنے اداروں میں ''بقایا‘‘ ہوگئے۔
اُنہوں نے مجھ سے اظہار ناراضگی کیا۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جہانگیر نصراللہ (مرحوم و مغفور) نے طلب کیا۔ موصوف کا تعلق بنیادی طور پر کورآف انجینئرز سے تھا، آئی ایس پی آر میں اُن کی پہلی تعیناتی اس ادارے کے سربراہ کے طور پر ہوئی تھی۔ اُنہیں اس خبرمیں پوشیدہ صحافیانہ گرہ بندی کا اندازہ نہیں ہوا۔ میں بھی خاموش ہی رہا کہ اگر ڈی جی کو بات کی تہہ تک پہنچایا گیا تو شامت میری ہی آئے گی۔ تھوڑی دیرکے بعد آرمی چیف آفس سے بلاوا آگیا۔ جنرل آصف نواز خبرکی گہرائی سمجھتے تھے، اُنہوں نے مشفقانہ لہجے میں بتایا کہ تمہارے دوست رپورٹرسے مختصربات ہوئی تھی۔ اُس نے دریافت کیا کہ سر! آپ کی آبائی جمنٹ کون سی ہے۔ میں نے کہا کہ پنجاب رجمنٹ اور مجھے اس حوالے سے 'پنجابی‘ ہونے پرفخر ہے۔ رپورٹر نے 'پنجابی‘ والی بات کو جس انداز میں نمایاں کیا ہے، اُس میں خبر کم شرارت زیادہ ہے ۔ خیر! کوئی بات نہیں۔ تم رات کو کہاں تھے؟ تقریب میں نظر نہیں آئے؟ میں نے جواب دینے کی کوشش کی تو اُنہوں نے کہا کہ کوئی قیامت نہیں آئی ہے۔ میرے سٹاف کو تمہیں بتانا چاہیے تھا کہ ایک رپورٹر سے میرے سوال جواب ہوئے تھے تاکہ بر وقت آئی ایس پی آر وضاحت کرسکتا۔ بہرحال اب تم خود ایڈیٹر سے مل کر یہ 'پنجابی‘ ہونے پر فخر ہونے کی بات کا پس منظر بیان کرو تاکہ معاملہ واضح ہو جائے۔
سچی بات یہ ہے کہ 1973ء سے 2003ء (تیس برس) تک آئی ایس پی آر میں رہے، روزانہ میڈیا کے ساتھ شطرنج کی بازی سج جایاکرتی تھی، کبھی ہم جان بوجھ کی ہار سے اُن کی دلجوئی کرتے تاکہ خوشگوار تعلقات برقرار رہیں اور بوقت ِضرورت کام آئیں۔ میں نے ریٹائرہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہماری حالت یہ تھی کہ صبح جنرل جاگتے تھے اور رات کو جرنلسٹ۔ ہمیں دونوں کے ساتھ جاگنا ہوتا تھا۔ موجودہ حالات میں الیکٹرانک میڈیاکے بے محابا پھیلاؤسے صورتحال مزید ''دگرگوں ‘‘ ہو گئی ہے۔ اب رات دن مسلسل جاگنے والے خواتین و حضرات اینکر اور جرنلسٹ سکرین پر چھائے رہتے ہیں۔
یہ صورت حال آئی ایس پی آر کے لئے پیشہ ورانہ لحا ظ سے قابلیت، صلاحیت اور فرائض سے بے پناہ وابستگی کا تقاضا کرتی ہے۔ پاک افواج کو درپیش چیلنجز میں اہم ترین چیلنج کارکردگی کے حوالے سے مثبت تاثرکو ہر قیمت پربرقرار رکھنا ہے۔ اس ہدف کا حصول پائیدار بنیاد پر استوار، 'خوشگوار ملٹری میڈیا تعلقات‘ کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ یہ کیفیت دنیا کی ہر فوج کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ''عزتِ افواج‘‘ پامال ہونے کا خدشہ رہتاہے۔
بات کوئٹہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب شروع ہوئی تھی۔ آرمی چیف اپنے پس منظر کے مطابق 'بلوچی‘ ہوں یا 'پنجابی‘ اُن کے عسکری اعلانات سے سیاسی مد و جزر میں ٹھہراؤ ممکن نہیں ہے۔ وفاق کی حالت دیکھیں تو چار بڑے سیاسی عہدے صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی صرف دوبڑے شہروں لاہور اور کراچی تک محدود بلکہ پیوست ہوگئے ہیں۔ صدر اور چیئرمین سینیٹ کراچی کے مستند شہری ہیں۔ وزیر اعظم اور سپیکر زندہ دلانِ لاہورکی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بلوچستان صرف ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اہم شخصیات کے یک روزہ دورہ کا ہی حقدار ٹھہرا ہے۔
انشاء اللہ تیس مارچ 2017ء کو اسلام آباد میں شاندار عسکری پریڈ ہوگی تو ڈائس پر محض زندہ دلان ِلاہور اور روشنیوں کے شہر کراچی کے سپوت دیکھنے والوںکی آنکھیں خیرہ کررہے ہوںگے۔ یہ طرز ِعمل کسی صورت وفاقی اور جمہوری نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی شخصیت کے گرد پاک سرزمین کا نظام محوِگردش ہے؛ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر یا سپیکر قومی اسمبلی میں سے کسی ایک عہدے پر سیاسی ''بلوچی‘‘ کو منتخب کیا جائے تاکہ بلوچستان میں بھی وفاقیت کا بول بالا ہو سکے۔ عسکری 'بلوچی‘ کے پاس کرنے کو اور بہت کام ہیں۔