اقتصادی اشاریوں پر ہمیشہ تشریح اور بحث کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ان اعداد و شمار کا معروضی جائزہ لیتے ہیں جبکہ بعض اپنے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں۔آخر الذکر صورت میں تجزیہ نگار صرف اپنے مطلب کی معلومات پیش کرتے ہیں اورپہلے سے موجود خیالات کی بنیاد پر ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں چند لوگ اپنے تعصبات سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ اتنے اہم اعدادو شمار کی غلط تشریح کے ذریعے اپنے ہی ملک کا نقصان کر رہے ہیں۔ وہ یہ محسوس نہیں کر پاتے کہ نامکمل شواہد کی مدد سے کیا گیا اُن کا تجزیہ مقامی و غیرملکی سرمایہ کاروں اور اقتصادی شراکت داروں کے بھروسے کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ خوش قسمتی سے بین الاقوامی اداروں بشمول عالمی بنک(World Bank) ، عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) ، ایشیائی ترقیاتی بنک (ADB) اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں(Credit Rating Agencies) نے معروضی تجزیے اور تخمینے پیش کئے ہیں۔
مثال کے طور پر قومی قرضے کے انتظام کو لے لیجئے۔ چند تشکیک پسند تجزیہ نگار پاکستان کے قرضوں اور ادائیگیوں کے سلسلے میںمبالغہ آمیزی سے کام لے کر قیامت کا منظر نامہ کھینچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بلا شبہ ان کے تجزیے حقائق کی بجائے غلط تشریحات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا چاہئے کہ قومی قرضے کا انتظام کرنا ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس میں بجٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ لاگت (Cost) اور رسک (Risk) کے درمیان توازن برقرار رکھنے اور ثانوی منڈی (Secondary Market)کا قیام اور قومی قرضے کو پائیدار بنیادوں پر قائم رکھنے کے مقاصد شامل ہوتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے اپنے مارچ 2016کے ایک اخباری کالم میں عرض کیا تھا کہ ہمارے قومی مالیاتی نظام میں قرضے کا انتظام خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے بڑے بڑے مالیاتی خساروں کی وجہ سے گزشتہ کچھ برسوں میں قومی قرضے میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ہماری حکومت کا وژن(Vision) یہ ہے کہ قرضے اور مجموعی قومی پیداوارکے تناسب کو موجودہ قانونی حد یعنی 60فیصد تک لایا جائے اور 2018-19سے آغاز کرتے ہوئے پندرہ سال میں اس کو پچاس فیصد کر لیا جائے۔اسی طرح ہم نے وفاقی مالیاتی خسارے کیلئے بھی4فیصد کی قانونی حد مقرر کر دی ہے۔اس سلسلے میں پارلیمان نے جون 2016 میں مالیاتی ذمہ داری اور قومی قرضے کی حد کے قانون (Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act) میں ضروری تبدیلیوں کی منظوری دی ہے۔ ان دور رس تبدیلیوں سے ہمارے قرضوں کے انتظام میں ایک متعین نظم و ضبط آئے گا۔ اس وقت میں کچھ عام غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
زیادہ تر قرضہ بیرونی نہیں بلکہ مقامی ہے
سب سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ مقامی اور بیرونی قرضوں کا رسک علیحدہ علیحدہ ہے۔ جون 2016 کے اختتام پر کُل (Gross)ملکی قرضہ 19.68کھرب(Trillion) روپے تھااور خالص (Net)ملکی قرضہ17.83کھرب روپے تھا جس میں سے خالص مقامی قرضہ11.78کھرب روپے اور بیرونی قرضہ 6.05کھرب روپے تھا۔ اس طرح خالص مقامی قرضہ خالص ملکی قرضے کا تقریباً66فیصد جبکہ باقی ماندہ 34فیصد بیرونی قرضہ تھا۔
نئے قرضوں کی ادائیگی لمبی مدت میں ہو گی
حکومت وسط مدتی حکمتِ عملی برائے قرضہ جات (Medium Term Debt Strategy) برائے 2015/16تا 2018/19 پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سرکاری قرضے کی ادائیگی کی مدت میں اضافہ کر کے اسے مزید قابلِ برداشت بنا رہی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت پاکستان انوسٹمنٹ بانڈ کی طرح کے وسط مدتی اور طویل المیعاد قرض کے ذریعے مقامی قرضے کی اوسط مدتِ تکمیل (Maturity) بڑھائی جائے گی۔ جون 2016 کے اختتام پر درمیانی اور طویل مدت کے قرضے کی مالیت 8.6کھرب روپے تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 13.7فیصد زیادہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قلیل مدتی قرضوںمیں ایک سال کے دوران صرف 8.4فیصد اضافہ ہوا۔
جون 2013 کے اختتام پر پاکستان کے سرکاری قرضے میں موجود ری فنانسنگ رسک (Refinancing Risk) ایک اہم مسئلہ تھاجس کی بنیادی وجہ فوری طور پر قابل الادا مقامی قرضے تھے۔اب ہم نے اس رسک کو کافی حد تک کم کر لیا ہے کیونکہ ہم نے ادائیگیوں کی مدت میں اضافہ کردیا ہے۔ لہٰذا اگلے ایک سال میں واجب الادا قرضوں کی شرح جو2013 میں 64.2 فیصد تھی ، جون2016 کے اختتام پر کم ہو کر 51.9 فیصد رہ گئی۔ جون 2016میںمقامی قرضے کی ادائیگی کی اوسط مدت میںاضافہ ہوا جو جون2013کے 1.8سال کے مقابلے میں 2.1سال ہو گئی ہے۔حکومت وسط مدتی حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے لاگت (Cost) اور رسک (Risk) کا موازنہ کر کے قرضوں کی اوسط مدتِ ادائیگی میں مزید اضافہ کرے گی۔ سب مالیاتی ماہرین اتفاق کریں گے کہ مقامی قرضے کی جتنی طویلmaturityہو گی اتنی ہی شرحِ منافع اور اُن کی ادائیگی یا توسیع کا رسک (Risk)کم ہو گا۔ علاوہ ازیں PIBsکی طویل مدت سے debt capital market کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے اورلاگت (Cost) کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ادائیگی کا بوجھ کم ہوا ہے
ادائیگوں کے اوقات میں یہ تبدیلی اس وقت ہو رہی ہے جب مقامی قرضوں کے ریٹ(Rate) بہت نچلی سطح پر ہیںجسے دیکھتے ہوئے حکومت نے اپنی آئندہ ادائیگیوں کی لاگت (Cost)میں فائدہ اٹھایا ہے۔ اوسط مدت ادائیگی بڑھنے کی لاگت (Cost) یقینا دوبارہ قرضوںکے حصول کے خطرے (Risk) میں کمی اور لاگت (Cost) میں ہونے والے اضافوں سے تحفظ کی صورت میں ملنے والے فوائد کہیں زیادہ ہیںکیونکہ جون 2016میںایک سال میں ہونے والیdomestic debt refixing جون 2013 کے 67.2 فیصد سے کم ہو کر صرف 52.8فیصد رہ گئی ہے۔ مقامی قرضوں کو ترجیح دینے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں بیرونی قرضوں کی نسبت دوبارہ حصول (Roll-Over)کے رسک (Risk) کی شدت کم ہوتی ہے۔ خصوصاً مقامی کرنسی میں اٹھایا گیا قرضہ ٹریژری بلز (T.Bills) اور انوسٹمنٹ بانڈ (PIBs) کے مناسب امتزاج کے ذریعے فوری طور پر دوبارہ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ٹی بلز(TBs) کی ہر دو ہفتے بعد ہونے والی بولی اور مختلف maturityکے پاکستان انوسٹمنٹ بانڈز (PIBs) کی ہر مہینے ہونے والی بولی ری فنانسنگ کیلئے آزمودہ اور منظم موقع فراہم کرتی ہے۔
ادائیگی وقفے وقفے سے ہے نہ کہ کسی ایک مدت میں
یہاں یہ واضح کرنا اہم ہے کہ ساری ادائیگی ایک ہی وقت پر نہیں کرنا ہوتی بلکہ مختلف قرضے مختلف مدت میں واجب الادا ہوتے ہیں۔ اس سے حکومت کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے موجودہ قرضے کی ادائیگی کے لئے مناسب شیڈول(Schedule) یا نئی مدت کا تعین کرے۔ایسا کرتے ہوئے حکومت قرض حاصل کرنے کی موجودہ لاگت، آنے والی مدت کے ممکنہ ریٹ اور محصولات کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔
بیرونی سرکاری قرضے کا حجم کم ہوا ہے
بعض تجزیہ کار اکثراوقات غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے میڈیا میںکہتے ہیں کہ سرکاری قرضے کا حجم 73ارب ڈالر ہے۔ وہ سرکاری اور نجی قرضے کو خلط ملط کرتے ہیں اور اس میں مالیاتی اور غیر مالیاتی نجی اداروں کے فارن ایکسچینج قرضوں کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ جون2016 کے اختتام پر کل غیرملکی سرکاری قرضہ57.7ارب ڈالر تھا جبکہ جون2013 کے اختتام پر بیرونی سرکاری قرضے کا حجم 48.1ارب ڈالرتھا۔ اس طرح بیرونی قرضوں میںمجموعی طور پر 6.3فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ کوئی بھی معقول ذہن اس اضافہ کو بے تحاشا اضافہ نہیں کہہ سکتا جیسا کہ بعض مبصرین دعویٰ کرتے ہیں۔یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اس رقم کا ایک حصہ آئی ایم ایف کے قرضے سے آیا ہے جو بجٹ سپورٹ کیلئے نہیں بلکہ صرف بیرونی ادائیگیوں کے توازن اور 2011میں آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے کی بقایا اقساط ادا کرنے کیلئے لیا گیا ۔ آخری بات یہ کہ ہر غیر جانبدار مالیاتی ماہر (Financial Expert)تسلیم کرے گا کہ بیرونی قرضے کے حجم میں تھوڑے بہت اضافے کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرضوں کے حجم میں فارن کرنسی ذخائر ، فارن کرنسی آمدن اور مجموعی قومی پیداوارکے مقابلے میں کیا اضافہ ہوا ہے۔نیچے دیے گئے جدول(Table) کے سرسری جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ حجم میں اضافے کے باوجود بنیادی معاشی اشاریوں مثلاً مجموعی قومی پیداوار اور فارن کرنسی ذخائر کے تناظر میں گزشتہ تین برس کے دوران بیرونی قرضوں کے بوجھ میںاچھی خاصی کمی آئی ہے۔
سرکاری بیرونی قرضے کے اہم اشاریے۔فیصد
جون 2013
جون 2016
سرکاری غیر ملکی قرضہ/
مجموعی قومی پیداوار
20.8
20.4
سرکاری غیر ملکی قرضہ/
سٹیٹ بنک کے ذخائر
8.0
3.2
سرکاری غیر ملکی قرضہ/
کل ذخائر
4.4
2.5
سرکاری غیر ملکی قرضہ کی ادائیگی/
فارن کرنسی آمدن
11.1
8.4
سرکاری غیر ملکی قرضہ کی ادائیگی/
برآمدی آمدن
22.6
15.9
خالص(Net) بیرونی قرض داری میں کمی/بہتری
ایک حقیقت پسندانہ طریقہ یہ ہو گا اگر ہم ملک کی مجموعی بیرونی قرض داری کا جائزہ لیں جس کا پیمانہ یہ ہے کہ سرکاری غیرملکی قرضے اور سرکاری فارن کرنسی ذخائر کا فرق دیکھا جائے۔ جون 2013میںسٹیٹ بنک آف پاکستان کے مجموعی فارن کرنسی ذخائر 6ارب ڈالر تھے جن میں سے 2ارب ڈالر ایک دوست ملک کے ساتھ قلیل مدتی کرنسی تبادلے سے حاصل کئے گئے تھے جو آئندہ 60دنوں میں واجب الادا تھے۔ اس لئے عملی طور پر جون 2013میںذخائر کا حجم صرف 4ارب ڈالر تھا جس کے مقابلے میں بیرونی سرکاری قرضہ 48.1ارب ڈالر تھا ۔اس طرح جون 2013میں خالص (Net) بیرونی قرضداری 44.1ارب ڈالر تھی ($48.1 billion minus$4.0 billion) جبکہ جون 2016میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مجموعی فارن کرنسی ذخائر 18.1ارب ڈالر تھے اور بیرونی سرکاری قرضہ 57.7 ارب ڈالر تھا اس طرح خالص بیرونی قرضداری 39.6ارب ڈالر($57:7 billion minus $18.1 billion)تھی۔چنانچہ جون 2013کے مقابلے میں جون 2016میں ملکی خالص قرضداری کی صورتحال میں 4.5ارب ڈالر کی بہتری آئی۔
کسی ملک کے فارن کرنسی ذخائر کی اہمیت پر جتنااصرار کیا جائے کم ہے۔ ان سے نہ صرف مرکزی بنک کرنسی کو غیر مستحکم کرنے والے قیاس آرائیوں پر مبنی حملوںکا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ فارن کرنسی کی مقامی منڈی کی مصنوعی تیزی کو روکنے کے ذریعے دراصل وہ افراطِ زر کو قابو میں رکھنے میں بھی مدد دیتے ہیںجس سے قرضوں کی مقامی شرح مناسب حد میں رہتی ہے۔ جون 2016تک ختم ہونے والے تین مالی سالوں میںبیرونی سرکاری قرضے کے حجم میں 9.6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس دوران اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے فارن کرنسی ذخائر میں 14.1ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔اس طرح بیرونی قرضوں کی رقم نکال کر بھی اسٹیٹ بنک کے ذخائر میں مزید 4.5ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے جون 2016کے اختتام تک تقریباً 12 ارب ڈالر بیرونی قرض کی واپسی کی ہے جس میں سے اکثر گزشتہ حکومتوں کا لیا ہوا قرضہ تھا۔ ان بھاری ادائیگیوں کے باوجود ملک کے فارن کرنسی ذخائر 23ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ان میں سے 18.1ارب اسٹیٹ بنک کے پاس ہیں جو کہ پانچ ماہ سے زیادہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جون 2013میں تقریباً ایک ماہ کی درآمدات کیلئے 4ارب ڈالر کے ذخائر موجود تھے۔ اس وقت کچھ مبصرین اسی وجہ سے یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ پاکستان کے بیرونی وسائل غیرملکی قرضے کی ادائیگیوںکیلئے ناکافی ہیں اور اس لئے ملک جون 2014میںڈیفالٹ کر جائے گا۔
ذخائر کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے آخر میں میں ایک سادہ صورتحال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔فرض کیجئے اگر ملک کے پاس فارن کرنسی کے تسلی بخش ذخائر نہ ہوں تو لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ملک کے بین الاقوامی رسک پروفائل (Risk Profile) کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ تمام بین الاقوامی ترقیاتی ادارے ادائیگیوںکے توازن کیلئے دی جانے والی امداد بند کر دیں گے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں صفر یا انتہائی کم استطاعت کی بنا پر ہماری ریٹنگ کئی درجے نیچے کر دیں گی اور درآمد کنندگان کو غیر ملکی بنکوں سے ہوشربا نرخوں پر اپنے لیٹر آف کریڈٹ (Letter of Credit: L/C)کنفرم (Confirm)کروانے پڑیں گے۔ قصہ کوتاہ ملک کوہائی رسک (High Risk) اور منفی آؤٹ لک (Negative Outlook)قرار دیا جا سکتا ہے جیسا کہ جون 2013 میں تھا۔ یہ سادہ سی مثال یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہونی چاہئے کہ مستحکم معیشت کیلئے فارن کرنسی ذخائر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر فارن کرنسی ذخائر بڑھ رہے ہوں اورملک کی خالص بیرونی قرضداری بھی کم ہو رہی ہو تو یہ دہرا فائدہ ہے جیسا کہ پچھلے تین سال میں پاکستان کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مختلف خبروں کے برعکس سستی ڈویلپمنٹ فنڈنگ میں اضافہ
گزشتہ تین سالوں میں بہت سے نکتہ چین تجزیہ کار بیرونی قرض میں اضافے کی بنیادی وجہ IMFکا اور تجارتی بنیادوں پر لیا جانے والا قرضہ قرار دیتے رہے ہیں جو کہ درست بات نہیں ہے۔ بیرونی قرضوں میں سب سے زیادہ حجم کثیر جہتی قرضہ جات(multilateral debt) کا ہے جو کہ جون 2016 کے اختتام تک 26.4ارب ڈالر ہیں اور پیرس کلب قرض جو کہ 12.7ارب ڈالر ہیں جو کہ مجموعی طور پر بیرونی قرض کا 68فیصد ہیں۔جبکہ سب سے زیادہ خبروں کا حصہ بننے والے IMFکے قرضہ جات اور یورو بانڈ (Euro Bond) اور SUKUKکی مقدار بالترتیب صرف 6ارب ڈالر اور 4.6ارب ڈالر ہیں جو کہ کل بیرونی قرض کا 18فیصد ہیں۔بقیہ 8ارب ڈالر باہمی اور تجارتی قرضہ جات ہیں۔اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ان قرضہ جات کا ایک بڑا حصہ پرویز مشرف کے تاریک دور میں جاری کیے گئے 500ملین ڈالر کے یورو بانڈ اور گزشتہ حکومتوں کے IMFسے حاصل کیے گئے قرضہ جات کی ادائیگیوں کی مد میں استعمال ہوا۔کثیر جہتی قرضہ جات میں عالمی بنک (World Bank) اور ایشیائی ترقیاتی بنک (ADB) سے حاصل کردہ رقوم کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔یہاں اس امر کی یاد دہانی بہت اہم ہے کہ ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ملک کی غیر متوازن اقتصادی صورت حال،High Risk Factorاور زرمبادلہ کے انتہائی قلیل ذخائر کے پیشِ نظر پاکستان سے سال 2013کے شروع میں عملی طور پر لین دین ختم کر دیا تھا لیکن ملکی معاشی صورت حال میں موجودہ حکومت کی بنیادی اصلاحات کی وجہ سے آنے والی بہتری کے باعث گزشتہ تین سالوں سے یہ تعلقات پھر سے بحال ہو چکے ہیں۔ ان شراکت داریوں کا بنیادی مقصد پاکستانی معشیت کو درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے علاوہ ملک میں توانائی، محصولات، کاروباری آسانی،تجارتی سہولت کاری اور تعلیم کے شعبہ جات میں مدد فراہم کرنا اور چھوٹے اور درمیانے درجہ کے کاروباروں کو فروغ دینا شامل ہے۔ یہ قرضہ جاتی پروگرام کارکردگی اور پیداوار میں اضافے کے ذریعے پاکستان کی ممکنہ اہلیت میں اضافے کا سبب ہو گا لہٰذا یہ پروگرام قرضہ جات کی واپسی کی ملکی صلاحیت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ یہ قرضہ جات رعائتی اور طویل مدتی ہیں اور ملک کے ادائیگیوں کے بوجھ میں زیادہ اضافہ کا باعث نہیں بنیں گے۔یہ رعائتی بیرونی قرضہ جات نسبتاً مہنگے اندرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں استعمال ہوئے ہیں۔
آنے والی ادائیگیاں ہماری استطاعت کے مطابق ہیں
سال 2021تک ہماری بیرونی قرضوں کی ادائیگیاںاوسطاً 5ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ملک کی گزشتہ روایت کے پیشِ نظر ادائیگیوں کی یہ مقدار پریشان کن نہیں ہونی چاہیے۔مالی سال 2013اور2014میں پاکستان نے بڑی کامیابی سے 6ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کی ادائیگیاں ایسی صورت حال میں کیں جب زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہت کم تھے۔جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ اتنی بڑی ادائیگیاں پچھلی حکومتوں کے لیے گئے قرضہ جات کی مد میں کی گئیں۔اس وقت ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 23ارب ڈالر ہیں جو کہ تاریخی اعتبار سے بلند ترین سطح پر ہیںاور اسی لیے طے شدہ ادائیگیاں قابل انتظام ہیں۔ اس سے قبل ذخائر کی بلند ترین سطح -18.2ارب ڈالر جولائی 2011میں تھی۔جس میں IMFکی سٹینڈ بائی سہولت (Standby Facility) کے تحت حاصل ہونے والے -7.5ارب ڈالر بھی شامل تھے۔
کچھ Sustainabilityکے بارے میں
قرضوں کی Sustainabilityکے حوالے سے وزارتِ خزانہ میں Debt Management Officeہے جو کہ LiquidityاورSolvencyکے معیاری اعداد و شمار کی روشنی میں بیرونی قرضوں پر نظر رکھتا ہے۔ میں نے پہلے ہی مارچ 2016کے آرٹیکل میں کچھ اشارئیے پیش کیے ہیں۔تاہم کچھ دیگر اعداد و شمار کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔Liquidityکے حوالے سے جس شرح کو دیکھنا سب سے ضروری ہے وہ ایک سال میں واجب الادا قرض اور ہمارے فارن کرنسی ذخائر کی شرح ہے۔ اس شرح میںنمایاں بہتری آئی ہے جو کہ جون 2013کے 69فیصد سے کم ہو کر جون 2016کے اختتام تک صرف 32فیصد رہ گئی ہے۔اس میں مزید اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ایک سال کے دوران واجب الادا ہونے والے قرضوں اور اسٹیٹ بنک کے خالص بین الاقوامی ذخائر(Net International Reserves)میں قابلِ ذکر بہتری آئی ہے کیونکہ اب یہ تناسب مثبت 77فیصد ہے جبکہ جون 2013میں جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ تناسب منفی(Negative) میں تھا۔
اس بات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے بلند شرح نمو کے حصول کے لیے اپنی استعداداور روزگار کے مواقع میں اضافہ ، فی کس آمدنی میں بہتری،غربت میں کمی اور مسابقت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے نتیجتاً بجٹ خسارہ ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ایک دوسرا حل ترقیاتی اخراجات میں کمی سے نموکا گلا گھونٹنا ہے جس سے اقتصادی و معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ہر سال فنانس بل کے ذریعے یہ مالی خسارہ پہلے ہی پارلیمنٹ سے منظور کیا جاتاہے تاہم یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ خسارے والا بجٹ خود بہ خود سرکاری قرض میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔اسی لیے سرکاری قرضے کی قطعی مقدار میں تب تک کمی ممکن نہیں جب تک پاکستان ایک بجٹ خسارے والا ملک رہے گا۔ قومی قرضے میں گزشتہ تین سال کے دوران 4,342ارب کا خالص (Net) اضافہ ہوا جو بنیادی طور پرپارلیمنٹ سے منظور شدہ مالی خسارے والے بجٹ کا لازمی نتیجہ ہے۔ یہ خسارہ جون 2016کے اختتام تک تین سالوں میں 4195ارب روپے رہا ہے۔ بقایا خسارہ دیگر غیر بجٹ خساروں کی وجہ سے ہے جیسا کہ Net Exchange Losses جو کہ کرنسی کے اندرونی و بیرونی اتار چڑھائو کی وجہ سے پیش آ تے ہیں۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 30جون 2008کو پاکستان کا کل (Gross) سرکاری قرضہ6,126ارب روپے تھا جبکہ خالص(Net) سرکاری قرضہ 5,650ارب روپے تھا جس میں 2,798ارب کا خالص (Net)مقامی اور 2,852ارب روپے کا بیرونی قرضہ شامل تھا۔مالی سال 2012-13کے اختتام تک کل (Gross) سرکاری قرضہ 14,318ارب تک پہنچ چکا تھا جبکہ خالص(Net) سرکاری قرضہ13,483ارب روپے تھا۔ اس طرح گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور(2008-13) میں19فیصدسالانہ کی شرح سے 7,833ارب روپے کاخالص(Net)قرضہ حاصل کیا۔موجودہ حکومت نے2013میں اپنا پہلامالی سال 14,318ارب روپے کے کل(Gross)ملکی قرضے اور13,483ارب روپے کے خالص (Net) ملکی قرضے سے شروع کیاجس میں48.1ارب ڈالر (4,797ارب روپے) کا بیرونی اور 8,686ارب روپے کا خالص(Net) مقامی قرضہ شامل تھا۔ جولائی 2013سے جون 2016کے درمیان کل (Gross)ملکی قرضہ19,678ارب جبکہ خالص (Net)ملکی قرضہ 17,825ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں سے 57.7ارب ڈالر (6,051ارب روپے) بیرونی قرضہ جبکہ 11,774ارب روپے خالص (Net)مقامی قرضہ ہے۔اس طرح سرکاری قرضے میں 4,342ارب روپے کا خالص (Net)اضافہ ہوا ہے جس میں 9.6ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ شامل ہے۔اس طرح موجودہ حکومت کے پہلے تین سالوں میں خالص قومی قرضے میںسابقہ حکومت کے 19.0 فیصد کے مقابلے میں 9.75فیصد سالانہ اضافہ ہوا ہے ۔جون 2008میںخالص(Net) قرضے اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تناسب 53.1فیصد تھاجو جون 2013میں ہمارے حکومت سنبھالنے کے وقت بڑھتا ہوا 60.2فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ جولائی 2013سے جون2016کے درمیان خالص(Net) قرضے اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تناسب 60.2فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے یعنی اس میں مزید ابتری نہیں آئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماریdebt sustainability بہتر ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اس مضمون میں خالص (Net)قرضے کے اعدادوشمار بہترین عالمی طریق کاراور عالمی مالیاتی ادارے (IMF)اور متعدد ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں استعمال ہونے والے طریقے کے مطابق ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2013کے عام انتخابات کے وقت پاکستان کی معیشت کو استحکام کی اشد ضرورت تھی۔ لہٰذا موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کی غرض سے کئی عملی اقدامات اور بنیادی اصلاحات کیں۔ان اقدامات میں ٹیکس بیس کی بڑھوتری، غیر ضروری سبسڈیز میںکمی،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ Public Sector Enterprisesکی ساخت نو اور مالی خسارے میں کمی شامل ہے۔مالی خسارے(Budget Deficit) کو جون 2016تک تین سالوں میں 8.2فیصد سے کم کر کے4.6فیصد تک محدود کرنے کے باوجود موجودہ حکومت نے وفاقی ترقیاتی اخراجات(Development Expenditure) کو مالی سال 2013کے 348ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 2017کے لیے 800ارب روپے تک بڑھایا ہے تاکہ GDPکو مزید بڑھایا جا سکے جو کہ مالی سال 2016میں 8سال کی بلند ترین سطح 4.7فیصد پر رہی۔ اسی طرح غریب ترین لوگوں کو دی جانے والی مالی امداد میں تین سالوں میں مالی سال 2013کے 40ارب روپے کے مقابلے میںجون 2016کے آخر تک 115ارب روپے تک اضافہ کر دیا گیا۔جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013میں اقتدار سنبھالا تو اوسط افراط زرDouble Digit میں تھی جسے مالی سال 2016تک 3فیصد سے بھی کم کردیا گیا ہے جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں کی کم ترین سطح ہے۔آمدنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو گزشتہ 3سالوں میں ٹیکس محصولات میں سالانہ 20فیصد کی اوسط سے 60فیصد اضافہ ہوا ہے جو مالی سال 2013کے 1946ارب سے بڑھ کر مالی سال 2016میں 3112ارب روپے ہوا ہے جو کہ مالی سال 2013کے 3.38فیصد سالانہ سے6 گنا زیادہ ہے۔
عالمی اداروں نے بھی پاکستان کی اقتصادی کارکردگی میں بہتری آنے کا اعتراف کیا ہے۔ حال ہی میں سٹینڈرڈ اینڈ پورز(Standard & Poor's) نے پاکستان کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ منفی Bسے بڑھا کر Bکردی ہے اور آئندہ کی صورتحال کو مستحکم قرار دیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ملکی معاشی منظرنامہ بہتر ہوا ہے اور بیرونی کھاتوں میں بہتری آئی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے (IMF)نے مالی سال 2017کے لیے پاکستان کی مجموعی معاشی کارکردگی (GDP) کا تخمینہ بہتر کرتے ہوئے 4.7فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کر دیا ہے جبکہ ایشیائی ترقیاتی ادارے نے 2017 کے لیے پاکستان کی GDP،5.2فیصدسے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔عالمی بنک کے مطابق ترقی کی شرح 2017میں 5.2اور 2018میں 5.5فیصد رہنے کا امکان ہے ۔ علاوہ ازیں ہارورڈ یونیورسٹی کے مطابق 2024تک پاکستان کی GDPمیں 5.07 فیصد سالانہ اضافہ ہو گا۔ہمارا ہدف یہ ہے کہ مالی سال 2017-18تک اقتصادی ترقی کی رفتار کو 6سے 7فیصد تک بڑھایا جائے۔
ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ بار بار یہ معاملہ اٹھاتا ہے کہ حکومت مہنگے نرخوں پر بیرونی قرضے لے رہی ہے۔مگر یہ بات حقائق کے برعکس ہے۔ بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ انتہائی کم نرخوں اور آسان شرائط پر حاصل کیا گیا ہے۔اس کا اندازہ موجودہ حکومت کے بیرونی قرضوں کی اوسط لاگت سے ہوتاہے جو گرانٹس کے بغیر 3.1فیصد اور گرانٹس ملا کر 2.9فیصد ہے۔علاوہ ازیں اکتوبر 2016میں ہماری حکومت نے 1ارب ڈالر کا بین الاقوامی سکوک 5.5فیصد کے نرخ پر جاری کیا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں سکوک اور بانڈکا کم ترین نرخ تھا۔لہٰذا موجودہ حکومت کے اٹھائے گئے بیرونی قرضے نہ صرف سستے نرخوں پر لیے گئے بلکہ ان کی ادائیگی بھی لمبی مدت میں واجب الادا ہے۔بیرونی قرضے اور GDPکا گرتا ہوا تناسب یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرضداری کی رفتار میں کمی آئی ہے۔
مالیاتی اور جاری کھاتوں کا خسارہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ناگزیر ہے۔اچھے معاشی بندوبست کے لیے ایک اہم چیلنج یہ بھی ہے کہ ان دو خساروں کو قابل برداشت حد تک رکھا جائے تاکہ مالیاتی خسارے میں بلا روک ٹوک اضافے سے سرکاری قرضے کے حجم میں اضافہ نہ ہو اور جاری کھاتوں کے خسارے سے ایسی بیرونی ادائیگیاں نہ جمع ہوں جن کے لیے ممکنہ وسائل دستیاب نہ ہوں ۔ہماری قرضوں کی پالیسی دراصل ان دو خساروں کا توازن برقرار رکھنے پر مشتمل ہے۔
مالیاتی نظم و ضبط ہمارے قرضوں کے بندوبست میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے جس کا مرکزی نکتہ بجٹ خسارے میں کمی لانا ہے۔نتائج خود بولتے ہیں۔مالی سال 2016میں GDPکے 4.6فیصد ہونے والا خسارہ مالی سال 2013کے 8.8فیصد کا تقریباً نصف ہے جب موجودہ حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔موجودہ مالی سال(2017) کے اختتام تک اسے 4 فیصد تک لایا جائے گا۔ تاہم اس کے باوجود اب برآمدات میں اضافہ کرنے اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری ہمارا ترجیحی ایجنڈا ہے۔اس سلسلے میں لیے گئے اصلاحی اقدامات سے آنے والے برسوں میں ملک کے Debt Sustainability profileمیں بہتری آئے گی۔مجموعی طور پر اوپر بیان کیے گئے شواہد یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان اپنے قرضوں کا انتظام مناسب طریقہ کار کے مطابق کر رہا ہے۔اس سے اس تاثر کی بھی فیصلہ کن طریقے سے نفی ہوتی ہے کہ آنے والے کئی برسوں تک پاکستان قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا کرے گا۔
(مصنف فیلو چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں)