"SKC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کی ناکامی ( آخری قسط)

گزشتہ کالم میں دہشت گردی کی ناکام مثالوں کا ذکر ہوا۔ بین الاقوامی سطح پر تین بڑی لہروں، انارکسٹ یا نظریاتی، سامراجیت کے خلاف اور نسلی یا قوم پرست دہشت گردی کا تفصیلی ذکر ہوا۔ دہشت گردی کی چوتھی بڑی لہر مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کو مارنا ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی بھی کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور بدھ مذہب کو استعما ل کر کے دہشت پھیلانے والے خا طر خواہ کامیابی حا صل نہیں کر سکے۔ چونکہ دہشت گردی ایک کمزور گروہ کا ہتھیار ہے اور وہ طاقت کا استعمال کر کے سیاسی تبدیلی لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اس لیے دہشت گردوں کی لیڈرشپ کی سوچ سیاسی ہوتی ہے۔ عام سیاستدانوں کی طرح موقع محل کے اعتبار سے ان کی سٹریٹجی میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بیان بازی بھی ہوتی ہے اور اہداف اور طریقے تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لیے جس کمیونٹی کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں وہاں اپنی مقبولیت کھو دیتے ہیں۔ اکثر دہشت گرد تنظیمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مقصد سے ہٹ جا تی ہیں۔ دہشت گرد تنظیم کا سب سے بڑا ایڈوانٹیج مقامی سطح پر ان کی مقبولیت اورحمایت ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کا پروپیگنڈا مقامی لوگوں کو ہدف بنا لیتا ہے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیمیں بیرونی ملکوں کی امداد پر انحصار شروع کردیتی ہیں۔ بیرونی مما لک کی امداد ان کے اپنے ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے۔ اسی لیے بیرونی مداخلت کو دہشت گردی سے نبردآزما حکومتیں کائونٹر پروپیگنڈا (Counter Propaganda) کے طورپر استعمال کرلیتی ہیں۔کسی علاقے میں دہشت گردوں کا وجود ہی اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کو مقامی حمایت حاصل ہے ۔اسی لیے حکومت کے مقابلے میں دہشت گرد تنظیم کے پا س مقامی معلومات زیادہ ہوتی ہیں لیکن بیرونی عناصر کے غلبے سے ان کی یہ بر تری کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مقامی آبادی بیرونی عناصر سے نا خوش ہوتی ہے اور یو ں حکومت کے لیے مددگار بن جاتی ہے ۔ اگر بیرونی ممالک کی حمایت نہ ہو یا وقت کے ساتھ کم یا ختم ہوجائے تو دہشت گرد تنظیموں کے لیے مالی وسائل کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل جاتے ہیں یا خود جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔ لاطینی امریکہ میں کچھ دہشت گرد تنظیموں اور منشیات کا کاروبار کرنے والے گروہوں کے درمیان اس طرح کا تعاون چل رہا ہے۔ ترکی اور ایران کی سرحد پر کرد دہشت گرد تنظیم کے ارکان افغانستان سے سمگل ہونے والی منشیات سے بھتہ لیتے اور یورپ تک جانے کا راستہ مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان ،افغانستان اورکئی دوسرے ممالک کے انسانی سمگلر بھی انہی راستو ں کا استعمال کرتے ہیں اور اس کرد تنظیم کے سا تھ تعاون سے لوگوں کو سرحد پار کراتے ہیں جن کی منزل یورپ ہوتی ہے۔ کرد تنظیم کے لیے یہ کمائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ما لی وسائل کوپورا کرنے کے لیے دہشت گر د تنظیم خود بھی جرائم کا ارتکاب کرتی ہے۔ بینک ڈکیتی، اغواکاری، بھتہ اور سمگلنگ جیسے طریقے اپنا لیتی ہے۔ جرائم میں ملوث ہو کر یہ تنظیمیں اپنی ساکھ کھو دیتی ہیں اور اپنا سیاسی ہدف بھی۔ عوام میں ان کی مقبولیت کم ہوجاتی ہے اور حکومت کو ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ کچھ دہشت گرد تنظیمیں تو یکسر تبدیل ہو کر صرف جرائم پیشہ گروہ بن جاتی ہیں۔ ایسی تنظیموں کی کمائی کا ایک اور بڑاذریعہ ان کے نظریاتی خیرخواہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے حمایتیوں کے چندے اگر حکومت کنٹرول کرے تو دہشت گرد تنظیموں کے لیے مالی وسائل کا بڑا مسئلہ بن جا تا ہے اور وہ جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات دہشت گرد گروہ اپنے علاقے سے نکل کر دوسرے علاقوں میں جا کر آپریشن کرتے ہیں ۔ ایسے علاقوں میں ان کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ان کو مقامی سطح پر حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو ان کے خلاف سخت کارروائی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ہم کو نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکی ردعمل سے ملتی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے ردعمل میں بھارتی حکومت کو بھی رائے عامہ کی تائید ملی۔اگر دہشت گرد گروہ گوریلا جنگ لڑیں ،معصوم لوگوں کو نشانہ نہ بنائیں اور اپنی توجہ صرف قابض فوج پررکھیں تو پھر کچھ نہ کچھ کا میابی مل بھی جاتی ہے۔ اس کی مثال فلسطین میں یہودی دہشت گرد تنظیم ارگن(Irgun) کی ہے۔ ارگن نے چالیس کی دہائی میں برطانوی فوج کو نشانہ بنایا۔ برطانوی فوج ،جو کہ فلسطین سے نکلنے والی تھی ،نے وہاں سے اپنی فوج کے انخلا میں جلدی کی کیونکہ اس کو یہ جنگ کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔ چنانچہ دہشت گرد تنظیمیں دہشت گردی کو چھوڑ کر ایک روایتی فوج کی طرح حکمت عملی بنالیں توپھر قابض فوج کو نکالنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چین میں مائو کی یہی پالیسی رہی ۔ مائو کی گوریلا فوج کو عوام کی حمایت مل گئی اور وہ بیرونی افواج کو شکست دینے میں کامیا ب رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی اگرکسی قابض سامراج کے خلاف بھی استعمال کی جائے تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ فلسطین میں ارگن کی کامیابی جزوی تھی اور اس کو کسی بھی طرح ایک مکمل کا میابی نہیں کہہ سکتے۔فلسطین میں ہی یاسر عرفات کی پی ایل او کو تبھی کچھ کامیابی ملی جب اس نے سیاست کا راستہ اپنالیا۔ اس کو بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی اور فلسطین کی نمائندگی کا حق بھی۔ ان دو کالموں کے تفصیلی جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی مسائل کا حل دہشت گردی میں نہیں بلکی سیاسی عمل میں ہوتا ہے۔ دہشت گرد اگر دہشت گردی کو چھوڑ کر پرامن سیاست کا راستہ اپنائیں تب ان کو کامیابی مل سکتی ہے۔ سامراجی اور قابض فوج کے خلاف بھی دہشت گردی نا کام ہوتی ہے لیکن اگر وہ روایتی فوج کی طرح لڑے تب کامیابی کے امکا نات ہوتے ہیں۔ ان سب وجوہات سے بڑھ کر دہشت گردوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ معصوم انسانوں کو مار نا ہے۔ کیونکہ یہ فعل کسی بھی قانون، مذہب یا اخلاقیات کے نزدیک جائز نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں