"SKC" (space) message & send to 7575

امن مذاکرات

بہت سی شورشوں کا حل آخرکار مذاکرات میں ہی ہوتا ہے۔ ترکی میں گذشتہ تین عشروں سے جاری کـُرد باغیوں کی دہشت گردی اور ان کے خلاف ترک افواج کی فوج کشی کوئی رنگ نہیں لائی۔ اسی لئے حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے کُرد باغی تنظیم پی کے کے ،کے اسیر لیڈر عبداللہ اوجلان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے کئی دور چل چکے ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ مخالف پارٹیاں اور کُردوں کی سیاسی پارٹیاں بھی اس عمل کا حصہ بنیں تا کہ امن کا یہ منصوبہ دیرپا ہو اور کسی بھی پارٹی یا گروہ کو اعتراض نہ ہو۔ ان مذاکرات سے عام عوام نے بہت امیدیں لگائی ہوئی ہیں،کیونکہ لوگ دہشت گردی کی وجہ سے بہت زیادہ متا ثر ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوا تو ترکی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ حکمران جماعت کو اس سے بہت بڑا سیاسی فا ئدہ ہوگا۔ دس سال سے ترکی پر حکومت کرنے والی یہ جماعت تین بار انتخابات جیت چکی ہے اور اگر یہ کُرد مسئلے کا کو ئی قابلِ قبول حل نکالنے میں کا میاب ہو جاتی ہے تو آئندہ کے انتخابات بڑی آسانی کے ساتھ جیت سکتی ہے‘ لیکن اگر مذاکرات نا کام بھی ہوتے ہیں تب بھی طیب اردوان کی پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ یہ بات حزبِ اختلاف جمہوریت خلق پارٹی کو بھی معلوم ہے۔ خلق پارٹی کمالسٹ قوتوں کا سیاسی چہرہ ہونے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ یہ کامیابی دائیں بازو کی حکمران جماعت کو نہ ملے‘ لیکن ترکی میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کُرد مسئلے کے حل کے لیے موزوں ہیں۔ حزبِ اختلاف کا یہ منفی وتیرہ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے سیاسی مبصرین بھی خلق پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس سیاسی مڈبھیڑ میں ترک فوج کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سکیورٹی معاملات میں ترک فوج نے ہمیشہ اپنی مرضی کی ہے ۔ کرد با غی تنظیم کے خلاف جو بھی حکمت عملی بنی‘ وہ فوج نے بنائی ہے‘ لیکن موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ اس نے فوج کے سیاسی کردار کو کافی حد تک کم کیا ہے۔ گڈگورننس اور معاشی ترقی سے جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھ گیاہے اور یوں حکمران جماعت کو فوج کی سازشیں نا کام بنانے میں آسانی ہوئی ہے۔ اس وقت ترک فوج کے بیسیوں افسر اور جرنیل حکومت کے خلاف سازش کے مقدموں میں سزا پا چکے ہیں ا ور کچھ کا ٹرائل جار ی ہے‘ جس کا عنقریب کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔ ان مذاکرات کا فوری فا ئدہ تو یہ ہوا کہ عبداللہ اوجلان کے کہنے پر پی کے کے نے کئی اغواشدہ لوگوں کو رہا کیا اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی کمی آئی ہے‘ لیکن اس امن مرحلے کے ناقدین بھی ہیں جو زیادہ تر پرانی سوچ اور پالیسیوں کے تسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ ترکی کا پرانا نظریہ یہی تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے اورمسئلے کا عسکری حل تلاش کریں گے۔ عسکری حل ہنوز نہیں نکلا کیونکہ یہ مسئلہ سیاسی ہی نہیں بین الاقوامی بھی ہے۔ اس سوچ کے پیچھے کمالسٹ ذہنیت ہے جو وائٹ ہاوس کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر امریکہ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں‘ لیکن درپردہ وقتاً فوقتاً ایسے مذاکرات وقوع پزیر ہوتے رہے ہیں۔ ترک حکومت اور پی کے کے ،کے درمیان مذاکرات کے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ کُرد مسئلہ الگ ہے اور پی کے کے ،کا مسئلہ الگ۔ پی کے کے سے مذاکرات کرکے کرد مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تنقید بجا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پی کے کے کا ایک حقیقی وجود ہے اور وہ کرد علاقوں میں ایک مسلّمہ طا قت ہے ۔ غیرقانونی ہی سہی لیکن اس علاقے میںامن بحال کرنے کے لیے اس کو نظرا نداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ان کو قانونی حیثیت مل جا ئے گی۔ یہ قطعاً درست نہیں۔ دنیا کے کئی مما لک باغی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہتے ہیں؛ مثال کے طور پر اسرائیل نے حماس کے ساتھ با لواسطہ رابطہ رکھا ہے۔ اسی طرح کئی اور حکومتیں غیر قانونی گروہوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں رابطے میں رہتی ہیں۔ا ن مذاکرات سے ہم یہ بھی درس لے سکتے ہیں کہ فریقین میں چا ہے کتنی ہی نفرت اور دشمنی ہو پھر بھی ملک کے وسیع تر مفا د کے لیے ایک میز پر بیٹھا جا سکتا ہے۔ امریکہ بھی دس سال افغانستان میں بے سود کی لڑائی کے بعد اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جتن کر رہاہے‘ کیونکہ وہ اپنی تمام تر قوت کے باوجود طا لبان مزاحمت کا قلع قمع نہیں کرسکا اور اب دس سا ل بعد اس کو مذاکرات کی سوجھی ہے۔ افغان حکومت بھی مذاکرات کے لیے بے تا ب ہے۔ آئرلینڈ میں برطانوی حکومت اور آئی آر اے کے درمیان مذاکرات ہی سے شمالی آئر لینڈ کا مسئلہ حل ہوا۔ پاکستان کو بھی ملک کے اند ر حکومت کے ساتھ برسر پیکار مختلف گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چا ہیے۔ شورشوںا ور جنگوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل بھی مذاکرات سے ممکن ہوسکتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں