انسان بنیادی طور ایک متجسس ذہن کا حامل ہے۔ انسان کی یہی فکرِ تجسس اس کو اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کا علم حاصل کرنے کا متلاشی بناتی ہے۔ اور یوں یہ تجسس ذرائع ابلاغ کو وجود بخشتا ہے۔ اسی لیے انسانی معا شرے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ جدید معاشروں میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہتے ہیں، کیونکہ یہ حکومت کے مختلف اداروں پر نظر رکھتا ہے تا کہ عوام کو ان کے بارے میں آگہی ہو اور اداروں کی شفافیت برقرار رہے۔اسی لیے کسی معاشرے کی ترقی کے لیے ایک آزاد میڈیا کا کردار نا گزیر ہوتا ہے۔ میڈیا اگر آزاد نہ ہو تو اس کا بنیادی مقصد کھو جا تا ہے اور یہ ایک پروپیگنڈا بن جا تا ہے۔ اگر کوئی ملک غیر جمہوری ہو تو وہا ں پرمیڈیا حکومت کے پروپیگنڈے کے طور پر کام کرتا ہے ۔ عوام کوصرف وہی معلومات ملتی ہیں جو حکومت چاہتی ہے۔ اسی طرح معلوما ت کا رُخ یکطرفہ اور حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے، لیکن جمہوری نظام بھی میڈیا کی آزادی کی کوئی ضمانت نہیں۔حکومتی قدغنوں کے علاوہ بھی ایسے عوامل ہوتے ہیں جو میڈیا کی آزادی کو متاثر کرتے ہیں۔میڈیا کے مباحث میں موضوعی اور معروضی مسائل شروع دن سے ہی درپیش ہیں۔ کیا ایک صحافی غیرجانبدار ہوسکتا ہے؛ اور ایک معروضی حقیقت کو بلا کسی تعصب کے قارئین کے سامنے پیش کر سکتا ہے؟ یہ سوال نظریہ علم یا علمیت کے میدان سے جنم لیتا ہے۔ صحافت پر یہ فلسفیانہ انتقاد اس پر سوالیہ نشان ضرور لگاتا ہے، کیونکہ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ایک انسان کی سوچ، تربیت، علم و دانش اور تجربات چا ہے وہ وقوفی ہوں، ارادی یا جذباتی اس کے افکار میں جھلکتے ہیں۔اسی لیے ایک صحافی نہ چا ہتے ہوئے بھی موضوعی افکا ر کا حا مل ہوتا ہے۔ یہ بحث لاحا صل نہیں اور ایک صحا فی جو با قاعدہ صحا فت کے میدان میں علم رکھتا ہو اس بحث کا حصہ بنتا ہے۔ اسی لیے اس کو اپنے پیشے کی باریک بینیوں کا ادراک ہوتا ہے۔ ایک صحافی کواپنے پیشے کے علم الاخلاق کا بھی عالم ہوناچا ہیے، تا کہ اسے صحافتی فیصلہ کرتے وقت دِقت نہ ہو۔ اس قسم کی صورت حال سے صحافی ہمہ وقت نبردآزما ہوتے ہیں، کیونکہ ترسیلِ معلومات کا کام جدید فنیات کے بابت ہر آن وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک صحا فی کی پیشہ ورانہ تربیت میں کمی ہو تو وہ معروضی اور موضوعی تفکر کی تفریق میں الجھ سکتا ہے۔ صحا فت کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ایک صحافی کو اپنے بال بچو ں کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے۔ اس لیے صحافت کا شعبہ ذریعہ معاش کے دوسر ے شعبوں کی طرح بن جا تا ہے۔پھر صحافی کا آزادیِ اظہا ر محدود ہوجاتا ہے ۔ایجنڈا کا زیادہ تر معاشی افادیت یا سیاسی اور نظریاتی جھکائو پر مبنی ہوتا ہے۔ جس طرح کاروبار کی کامیابی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ویسے ہی میڈیا کا بھی یہی طریق ہے۔ سنسنی خیزی، خبروں میں غنائیت، غیرمصدقہ خبروں کی اشاعت، سیاسی اور نظریاتی جھکائو کی خبریں دینا عام ہوچکا۔ اس دوڑ دھوپ میں صحافی بھی اپنے اخلاق پیچھے رکھ دیتا ہے اور اپنی سٹارپاور بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایک صحافی سٹار بن جا تا ہے یا بنا دیا جاتا ہے تو وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ ایسا کچھ پوری دنیا میں ہوتا ہے لیکن نو آزاد میڈیا ،جیسا کہ پاکستان کا ہے ،اس کا بڑی آسانی سے شکار ہوجا تا ہے۔ اس ساری صورت حال میں ضابط یا Regulator کا کردار اہم ہوجا تا ہے۔ میڈیا کا ضابطہ اخلاق بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام ریاست کرے یا میڈیا خود۔ ریاست پر تو یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ یہ میڈیا پر ضابطہ اخلاق کے مد میں قدغنیں لگا سکتا ہے اس کی نیت میں کھو ٹ ہوسکتی ہے اور اقتدار کی قوت میڈیا کو دبا سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے خود اپنے لیے ضابطہ اخلاق بنائیں جو صحافتی اصولوں کی روشنی میں بنائے جا ئیں۔ یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتاہے کہ اگر میڈیا کے ادارے ایک شفاف اور اخلاقی اقدار پر مبنی ضابطہ بنا سکتے ہیں؟ یہ سوال بھی با لکل بجا ہے۔ پاکستان بھی اس طرح کے صورت حال سے دوچار ہے۔ اگر ضابطۂ اخلاق کا کام ایسے پروفیسروں اورصحافیوں کو دیا جائے جن کا علمی اور تحقیقاتی کام کسی اخلاقی اور علمی عیب سے پا ک ہو تو یہ فریضہ بطریقِ احسن انجام پا سکتا ہے۔