"SKC" (space) message & send to 7575

ترک حکومت اور میڈیا

ترکی میں گیزی پارک کے مظاہرے تو ختم ہوچکے لیکن اب عوامی اشتعال اور حکومتی روئیے کا پوسٹ مارٹم ہورہا ہے۔ ان مظاہروں کی ناکامی کا تو میں نے پہلے ہی سے عندیہ دیا تھا اور یقیناایسا ہی ہوا، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ترک سیاست میںان حکومت مخالف مظاہروں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس سارے عرصے میںترک میڈیا کے کردار پر بھی کئی سوال اٹھے ہیں۔ ترک میڈیا سیاسی اور نظریاتی اعتبارسے بٹا ہوا ہے۔ ماضی میںاسی میڈیا نے جرنیلوں اورآمروں کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میںآنے کے بعد ترک میڈیا کو ایک نیا ٹارگٹ مل گیا۔ ترک میڈیا نے عمومی طورپر جسٹس پارٹی کے خلاف ایک مہم چلارکھی ہے۔ گیزی پارک کے مظاہروں کے دوران بھی اسی میڈیا نے حکومت کے ہر اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان مظاہروں کی کوریج کے دوران حکومت مخالف ایجنڈا با لکل نمایا ں نظرآرہا تھا۔ کئی مواقع پر حقائق کو بھی پامال کیا گیا اور صحافت کے پیشہ ورانہ اخلاق کو بالائے طاق رکھا گیا۔ ترکی میں اب بھی ایسے قوانین نافذالعمل ہیںکہ جن کی رو سے صحافیوں کو پس زندان ڈال دیا جا تا ہے۔ ظاہر ہے اس کا الزام موجودہ حکومت پر ہی لگتا ہے۔ اسی لئے صحافی حضرات آزادیٔ اظہارکا رونا روتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر وہی صحافی ہیں جو ماضی میں فوجی حکومتوں کی آمریت کو جائز قرار دیتے رہے ہیں۔ بہرحال واقعات جو بھی ہوں آزادیٔ صحافت پر کوئی دو رائے نہیں۔ یہ بات موجودہ حکومت کو بھی نظرانداز نہیں کرنی چاہیے۔ جسٹس پارٹی کی میڈیا پالیسی وزیراعظم رجب طیب اردوعان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ پارٹی نے شروع ہی سے طیب اردوعان کو ایک مدبراور بین الاقوامی سطح کے لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ترکی کی مشرق وسطیٰ میں نئی خارجہ پالیسی کا خاصا کردار رہا ہے۔ ترکی نے عرب مما لک کے مسائل کے حل کے لئے کافی تگ ودو کی ۔ اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات دائو پر لگائے ۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی نہ صرف کھل کر مخالفت کی بلکہ فلسطینی متاثرین کی مدد بھی کی ۔ مختلف عا لمی فورمز پر ان کے حق کے لئے آواز بھی اٹھائی۔ عرب ممالک میں عوامی انقلابی لہر کی حمایت اور مدد کی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیانی مصالحتی کردار بھی ادا کیا۔ ایران اور مغرب کے درمیانی کشیدگی کم کرنے کے لئے کافی محنت کی۔ وسطی ایشیائی ممالک ، جو کہ ترک النسل ہیں، کی سیاست اور معیشت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ عراق کے معاملے میںمغرب کا کلیدی اتحادی رہا۔ یورپی اتحاد میں شمولیت اور ان مما لک کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں اردوعان نے دن رات صرف کیے۔ اس ساری پیش رفت کو جسٹس پارٹی نے اپنے عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جیسا کہ اردوعان کی قیادت میں ترکی عا لمی اور علاقائی سطح پر ایک لیڈر کی حیثیت سے ابھر رہا ہو ۔ ترک عوام کو پھر سے احساس ہوا کہ ترکی دنیا کی سیاست میں ایک اہم ملک بنتا جارہا ہے۔ ان کے سامنے بہت عرصے بعد عثمانی خلافت کی یاد تازہ ہوئی۔ قومیں اپنا شاندار ماضی ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور ترکوں کو بھی عظمت رفتہ کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ گو کہ ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی میں نیا ولولہ ڈالا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ترکی کی عالمی حیثیت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اب بھی عالمی سیاست پر بڑی طاقتوں کا راج چل رہا ہے۔ لیکن ترکی میں جسٹس پارٹی نے اردوعان کا ایسا تاثر بنایا کہ جیسے انہوں نے ترکی کو دنیا کی باوقار قوموں کی صف میں لاکھڑا کیا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک قوم اب اردوعان کو کم سے کم علاقائی لیڈر ماننے سے نہیں کتراتی۔ اگرچہ ترک میڈیا حکومت مخالف رہاہے لیکن اردوعان نے یہ بھی ثابت کیا کہ میڈیا کا کردار ایک ملک کی تقدیر بدلنے میں کس قدراہم ہوتا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جسٹس پارٹی نے میڈیا پالیسی بہت ہی پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلائی۔ ترک اخباروں کا تجزیہ کرنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ پانچ بڑے اخباروں میں سے چار کا ایجنڈا حکومت کی مخالفت پر مبنی ہے۔ ان کے علاوہ سات ایسے اخبار بھی جن کے قاری قدرے کم ہیں ،جسٹس پارٹی کے خلاف ہیں۔ ما ضی میں ان اخباروںکو حکومت کو ہرجانہ بھی ادا کرنا پڑا ہے۔ ان اخباروں نے تقسیم سکوائر کے مظاہروں کے دوران حکومت کی کھل کر مخالفت کی۔ اگر چہ مظاہرین اور مخالفین اپنے مقاصد میں نا کام رہے لیکن جسٹس پارٹی کے عمومی تاثر کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔خاص کر اردوعان کی شخصیت کے گرد جو تاثر بنا ہوا تھا وہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت کو اب ان صحافیوں سے الرجی ہونے لگی ہے جن کے قارئین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے کالم شیئر ہوتے ہیں، خاص کر نوجوان طبقے میں۔ حکومت اب ایسے صحافیوں کو نشانہ بنارہی ہے تاکہ حکومت مخالف سوچ کو دبایا جاسکے۔ یقینا یہ قابل تنقید اور غیر جمہوری فعل ہے۔جسٹس پارٹی اپنے آپ کو جمہوریت کا داعی گردانتی ہے لیکن میڈیا کو خاموش کرنے کا یہ اقدام اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ اردوعان پر پہلے ہی سے مخالفین ایک آمر حکمران ہونے کا الزام لگا رہے ہیںجس کو اس طرح کے اقدامات سے مزید تقویت ملے گی اور جسٹس پارٹی کا مینڈیٹ بھی متاثر ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں