بیتے ہوئے دن یا د آتے ہیں…(2)

شوکت جاوید
(سابق انسپکٹر جنرل پولیس)

 

اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سکیورٹی پہ مامور ٹیم کو ایک تربیتی کورس کے حوالے سے چراٹ بھیج دیا گیا اور یوں تین ماہ کے لیے شوکت جاوید کو ذوالفقار علی بھٹو کی رفاقت و قربت میسر آئی ۔ میری پوسٹنگ اُن کے ساتھ کر دی گئی اور اِس عرصہ میں انتہائی قریب سے اس عہد آفریں شخص کو رموز ِ مملکت طے کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ''بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ابھی اِس ڈیوٹی سے واپس آئے چند ہی ماہ گزرے تھے کہ ملک میں ایک تحریک نے جنم لیا اور بھٹو اقتدار سے الگ ہو کر جیل جا پہنچے ۔نواب محمد احمد خان قتل کیس میں اب اُن کی سکیورٹی پر مامور شوکت جاوید انہیں جیل سے لاہور ہائی کورٹ لاتا‘ اُن کے ساتھ بیٹھتا اور پھر واپس عدالت سے جیل لے جاتا۔ اقتدار اور اسیر ی‘ دونوں حکایتیںانتہائی سبق آموز اور تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں۔ 
بعدازاں میں بحیثیت اے ایس پی ڈی جی خان ، پاکپتن اور سرگودھا اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتا رہا۔ تاہم ایک بات بہت بڑا سچ ہے کہ ہر جگہ ایک خوبصورت کہانی اور یادوں کی بارات چھوڑ آیا ۔ پلٹ کر دیکھوں تو فخر محسوس کر تاہوں کہ میں نے شہر شہر ، نگر ی نگری اور کوچہ کوچہ انسانوں کے تحفظ، جرائم کی بیخ کنی اور قانون کی عمل داری کو نشانِ منزل بنایا ۔ 1981ء میں ایس پی کی حیثیت سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جا پہنچا‘ جہاں اسلام آباد پولیس کی خشتِ اول رکھی گئی ۔ اِس سپہ کی تیاری اور تربیت کا کام دو سال تک انجام دیا۔ اسے مبالغہ نہ جانیے بلکہ یہ ایک کھرا سچ ہے کہ اس وقت کے صدرِ مملکت اسلام آباد پولیس کو ملک بھر میں مثال کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ مجھے اپنے اِس پیشہ ورانہ کردار پر ہمیشہ بے پایاں فخر رہا ہے ۔ دو سال کے بعد مزید ترقی پائی اور ایس ایس پی اسلام آباد بنا دیا گیااور اس عہدہ پرچار سال فائز رہا۔ اسلام آباد پولیس کی ابتدا سے لے کر تا حال کوئی ایس ایس پی اسلام آباد میں اتنی طویل مدت تک فائز نہ رہا ۔ اسلام آباد پولیس سے وابستگی کے دوران اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور منتخب وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو قریب سے دیکھنے اور کام کرنے کا موقع ملا ۔ 
1987ء میں پنجاب واپسی ہوئی ۔ اُن دنوں پنجا ب کے وزیرِ اعلیٰ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تھے جنہوں نے مجھے پہلے جہلم اور چند ماہ بعد گوجرانوالہ پولیس کا ضلعی سربراہ مقرر کیا۔ یہ اُن دنوں کا قصہ ہے جب ملک میں مذہبی انتہا پسندی سر اُٹھا رہی تھی‘ لیکن یہ اللہ رب العزت کا خصوصی کرم تھا کہ اُس نے طارق پرویز ، طارق کھوسہ، ملک اقبال ، اشرف مارتھ شہید اور مجھ جیسے پولیس افسران کے دلوں میں ایمان کا وہ جذبہ موجزن کر دیا جس کے نتیجے میں ممولے شہبازوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اُسی زمانے میں سی آئی ڈی کا شعبہ معرضِ وجودمیں آیا اور سچ تو یہ ہے کہ مذہبی دہشت گردی اور منافرت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندہ رہنے کا جذبہ بھی ہمیں یہیں عطا ہوا۔ دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات اور مجرموں کے ٹھکانو ں تک پہنچنے کے لیے ہم نے ایمان سے تازگی حاصل کی اور اس طرح دہشتگردوں کو نکیل ڈالنے کی دیانتدارانہ کو ششیں اور کاوشیں کیں۔ 
میں لاہور اور ملتان کے ڈی آئی جی اور ریجنل پولیس افسر کے علاوہ مختلف عہدوں پر فرائض ادا کرتا رہا۔ اس عرصہ میں مجھے 5سال تک آئی بی جیسے حساس ادارے میں پنجاب کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ ذمہ داریاں انتہائی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی نازک بھی تھیں۔بہت سے قد آور لوگوں کے شب و روز اور اُن سے منسلک حکایات دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ اسی عرصہ میں دہشتگردی کے خلاف سفر بھی جاری و ساری رہا۔ میں5سال تک اِ ن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتا رہا۔ اور بعد ازاں آئی جی بننے سے قبل کچھ ماہ کے لیے آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتا رہا۔ 
2008ء میں میاں شہباز شریف نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیںاور مجھے پنجاب کا انسپکٹر جنرل پولیس بنا دیا گیا اور اپنی ریٹائرمنٹ تک یہ ذمہ داریاں ادا کرتا رہا۔ آئی جی پنجاب بننا اور 22واں گریڈ حاصل کرنا ہر پولیس افسر کا خواب ہوتا ہے اوراللہ رب العزت نے مجھے اِ س خواب کی تعبیر عطا کی ۔ 
معزز مہمانان ِ گرامی!
اس موقع پر میں آپ سے میاں شہبازشریف اور میاں نواز شریف کے ساتھ آئی جی مامور ہونے کے بعد ہونے والی ایک نشست کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گا ۔ جس میں‘ میں نے ان دونوں بھائیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میرا آئی جی پنجاب کے عہدہ پر فائز ہونا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خصوصی کر م اور آپ دونوں بھائیوں کا حُسنِ نظر ہے ۔ تو میاں نواز شریف یکدم بول اُٹھے ''شوکت صاحب یہیں رُک جائیے یہ صرف اور صرف اللہ ہی کا کرم ہے ۔ جبکہ ہمارا حصہ رائی برابر بھی نہیں۔‘‘ میں یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مجھے اک نیا حوصلہ ، عزم ، ولولہ اور جذبہ میسر آیا ۔ راہِ مستقیم مجھے نشانِ منزل نظر آنے لگی اور سچ تو یہ ہے کہ تین ماہ بعد جب وزیرِ اعلیٰ اور اُن کی کابینہ نے میری کارکردگی کا جائزہ لیا‘ تو تمام یک زبان تھے کہ ہم صحیح راستے کی جانب چل نکلے ہیں۔ (جاری) 

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں