سیاسی دنگل ختم ہو چکا۔ منصف دنگل نے فیصلہ سنا دیا۔ ابھی مقابلے میں حصہ لینے والوں کی ناک سے ’’غصیلی سانس‘‘ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بھی خاموش ہو جائے گی۔ بہرحال…… نتائج کیا نکلے ان پر غور کرنا ہے کیونکہ طوفانی نتیجہ ہے‘ بڑے بڑے برج اُلٹ گئے…… ایک ’’چوبرجی‘‘ بھی الٹی ہے‘ لاہور والی نہیں سیالکوٹ والی…… یہ بڑے برج گرے بھی کچھ اس طرح کہ جس ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے وہ سیدھا زمین کو لگی۔ (خوشخبری یہ ہے کہ اس حادثے میں ’’مکھی‘‘ بچ گئی) مفتوحین کو تو سیکھنا ہی چاہیے مگر ہمارا خیال ہے فاتحین کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ایسی ایسی طاقت ور اور بڑی بلڈنگ اس طرح گری کہ ملبہ بھی غائب…… کیا راجہ گجر خانی اور کیا گیلانی ملتانی‘ نہ بچے بلور پشاوری اور نہ وٹو اوکاڑوی تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا نے لوگوں میں شعور پیدا کردیا ہے۔ عوام لالی پوپ سے نہیں بہلیں گے اور نہ ہی گلی محلے کی مرمت تک محدود رہیں گے۔ اب ان کی قومی سیاست پر نظر ہے۔ اسی لیے تو گجر خان کے سمجھدار عوام نے ووٹ پر مہر لگاتے ہوئے راجہ جی کی اپنے شہر کے لیے پانچ ارب کی آخری ’’ویل‘‘ کو بھُلا دیا اور ان کے رینٹل پاور پلانٹ کو یاد رکھا کہ پانچ ارب صرف گجر خان کا فائدہ اور رینٹل پاور پلانٹ پوری قوم کا نقصان تھا…… گیلانی صاحب کے ووٹروں نے بھی ووٹ ڈالتے ہوئے شاہ جی کی طرف سے ملتان میں بننے والی چند سڑکوں اور پلوں کے ساتھ ایفی ڈرین و حج سکینڈل اور ان کے وزراء کی لوٹ مار کا موازنہ کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے…… وہ وٹو صاحب جن کی بڑھک تھی کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں سب کا صفایا کردے گی‘ اپنا صفایا کرا بیٹھے…… خیبر پختونخوا میں غلام احمد بلور صاحب کا اثرو رسوخ ریل گاڑی کے نیچے کچلا گیا…… ذاتی حلقے کی خدمت تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے بھی بڑی کی‘ سیالکوٹ میں موجود پاکستان ٹیلی ویژن کا دفتر جہاں ایک گاڑی تھی وہاں اپنے چار ووٹر بطور ڈرائیور بھرتی کر ڈالے۔ شاید یہی چاروں ایک ایک ٹائر لے کر دائیں بائیں ہو گئے کہ ڈاکٹر صاحبہ کی سیالکوٹ میں بہترین چلنے والی سیاسی گاڑی کا ٹائی راڈ کھل گیا…… دوسری طرف میاں نوازشریف صاحب کا ’’مُنڈا‘‘ محنتی نکل آیا۔ میاں شہباز شریف صاحب جنہوں نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی خادمِ اعلیٰ کہلوا کر عوام کو متاثر کرنا شروع کیا اور دوسرے صوبوں کی نسبت اپنی بساط سے بڑھ کر پنجاب کی جو خدمت کی‘ عوام نے چنائو میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شریفوں کو اس کی اُجرت عطا کردی…… پیارے قارئین! گیس اور لوڈشیڈنگ نے پنجاب کے عوام کو زیادہ ’’پٹایا‘‘ مگر پنجاب کے لوگوں نے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا صفایا کر کے بتا دیا کہ بجلی و گیس وفاق کا مسئلہ ہے صوبے کا نہیں۔ مگر یہ خوفناک مسئلہ ابھی موجود ہے اور ہمارے خیال کے مطابق یہ عوام سے زیادہ حکومت یعنی ن لیگ کے لیے ہولناک ہے کیونکہ اب وفاق میں بھی ن لیگ ہے اور اس کے سامنے اپوزیشن جماعت پڑھی لکھی اور باشعور ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ ہے۔ اگر نواز لیگ نے عوام کے دیرینہ مسائل حل نہ کیے تو اگلے الیکشن میں اس کا حال پیپلز پارٹی سے زیادہ بھیانک ہوگا کیونکہ یہ پڑھے لکھے اپوزیشن والے پانچ سال ایوانوں میں بیٹھ کر اس سے زیادہ سیکھ جائیں گے جتنا ان پڑھ پینسٹھ سال میں سیکھے۔ حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے کس قدر کڑے محاسبے کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی پر تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آنے والے ردعمل کو دیکھا جائے تو حکومت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا…… اگرچہ دور تک ویراں نہیں ہے بظاہر بھی کوئی طوفاں نہیں ہے سرکتی ہے زمیں پیروں سے یکدم یہ رستہ اس قدر آساں نہیں ہے دوسری طرف وزارتیں حاصل کرنے کے لیے جس طرح نون لیگ کے شیر اپنی جماعت کے ببر شیروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا جوڑ پڑتا رہے گا…… دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں میں حضرت عمر فاروقؓ جیسا احساس پیدا کرے جو خلافت ملنے پر اس ڈر سے رونے لگے کہ کیا میں یہ ذمہ داری پوری کر پائوں گا……!