"SAC" (space) message & send to 7575

لوڈشیڈنگ کا ’’علاج اور پرہیز‘‘

بھئی پرہیز تو کرنا پڑے گا…… مگر ڈاکٹر صاحب پرہیز بہت مشکل ہے…… تو پھر تمہارا صحت مند ہونا بہت مشکل ہے…… لیکن علاج تو کروا رہا ہوں…… پرہیز کے بغیر علاج کا کوئی فائدہ نہیں…… جن چیزوں کی وجہ سے تمہارے اندر بیماریاں پیدا ہوئیں وہی نہیں چھوڑو گے تو علاج کا کیا فائدہ؟…… کیسے چھوڑوں ایسی مزے کی چیزیں…… تو پھر زندگی چھوڑ دو۔ اگر زندگی چاہتے ہو تو پرہیز کرنا پڑے گا…… یہ وہ ڈائیلاگ تھے جو میرے اور ڈاکٹر سرور صاحب کے درمیان اس وقت بولے گئے جب وہ مجھے ہسپتال سے ڈسچارج کرتے ہوئے نصیحتیں فرما رہے تھے اور میں ’’محبت‘‘ میں اپنی مٹھیاں بھینچ رہا تھا…… صاحبان! گوجرانوالہ کے کسی کشمیری کو بکرے کا گوشت کھانے سے روکنا ایسے ہی ہے جیسے بش کے سامنے اسامہ بن لادن کی تعریفیں کرنا…… یا کسی بچے کے ہاتھ سے ویڈیو گیم چھیننا…… یا مولانا فضل الرحمن کو حکومت میں شامل نہ کرنا…… یا ریلوے لائن کراس کرنے کے لیے ہاتھ کے اشارے سے ریل گاڑی کو روکنا…… جس طرح رحمن ملک اور دہشت گردی کا ’’چولی دامن‘‘ کا ساتھ ہے اسی طرح بکرے اور کشمیری کا ’’توڑی دانے‘‘ کا پیار ہے۔ کشمیری اس امید سے بکرے کو تُوڑی دانہ کھلاتا ہے کہ اس کا گوشت بڑھ رہا ہے اور بکرا کشمیری کے ہاتھوں توڑی دانہ اس خوشی میں کھاتا ہے کہ کشمیری نے کھانے کی کوئی چیز کسی دوسرے کو بھی دی ہے۔ یہاں رحمن ملک صاحب کا تذکرہ اس لیے ہو گیا کہ میں نے ٹی وی پر جونہی رحمن ملک کی لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کی خبر دیکھی‘ چند گھنٹوں کے بعد ہی لندن میں بھی دہشت گردی کے ایک سانحہ کی خبر چلنے لگی اور میں بے وقوفوں کی طرح اس انتظار میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہا کہ ابھی کچھ دیر بعد لندن میں بھی رحمن ملک صاحب ہی کسی سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر میڈیا کے سامنے فرما رہے ہوں گے کہ ’’اس واقعے کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے‘‘…… شکر خدا کا کہ ملک صاحب پاکستان میں نہیں ورنہ یہاں جس قدر شدید گرمی پڑ رہی ہے اُنہوں نے اس کا ’’مُدّا‘‘ بھی طالبان پر ڈال دینا تھا۔ معافی چاہتا ہوں بات ہو رہی تھی ’’پرہیز‘‘ کی اور میں پھر رحمن ملک صاحب کا ذکر چھیڑ بیٹھا۔ ’’جس طرح گڈگورننس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ رحمن ملک سے پرہیز کرے اسی طرح دل کو اچھا رکھنے کے لیے دل کے مریض کو چاہیے کہ سرخ گوشت‘ بناسپتی گھی‘ سگریٹ اور چکنائی سے دُور رہے‘‘۔ یہ میرے لیے ڈاکٹر سرور صاحب کی ہدایت ہے۔ اب آتے ہیں اپنی موجودہ ’’قومی بیماری‘‘ لوڈشیڈنگ کی طرف۔ گزشتہ کئی برسوں سے بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہر پاکستانی کی زندگی کو جکڑ رکھا ہے۔ سارا دن گلی کوچوں میں اسی کا رونا سنائی دیتا ہے۔ ہر شخص کی تقریر کا موضوع یہی ہے۔ پوری قوم سابق حکمرانوں اور افسران کو کوستی ہوئی دکھائی دیتی ہے‘ جن کو ہم لوگ اس عارضہ کے لاحق ہونے کی وجہ سمجھتے ہیں۔ اسی چیخ پکار میں اچانک میڈیا پر ایک خبر دکھائی دی۔ ’’پاکستان میں سالانہ ایک سو بیس ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس خبر پر نظر پڑتے ہی وہ گالیاں جو ہم حکمرانوں اور محکمہ بجلی کے اہلکاروں کو دے رہے ہوتے ہیں مجھے اپنی طرف لوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اپنے موبائل فون پر Messages موصول ہونے والی سینکڑوں گھنٹیاں سنائی دیں اور میں اس شرمندگی سے یہ Messages نہیں پڑھ رہا تھا کہ یہ لازماً واپڈا والوں کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ غلیظ گفتگو اور آلودہ لطیفوں سے بھرے ہوئے Messages۔ اس خبر کے فوری بعد ٹیلی ویژن پر ایک احتجاج دکھایا جا رہا تھا ’’عوام کا لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج‘‘… چند نوجوان پولیس اہلکاروں کے موٹر سائیکل جلا رہے تھے۔ پیچھے کھڑے کچھ لوگ حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں بھی ان لوگوں میں کھڑا ہوں۔ مگر بجلی چوری کی خبر سننے کے بعد میں سر جھکا کر پیچھے کو نکل لیا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ٹھیک ہے لوڈشیڈنگ جیسی مہلک بیماری کا علاج حکومت کو ہی کرنا ہے لیکن یہ بیماری ختم کیسے ہوگی‘ اگر ہم پرہیز نہیں کریں گے کیونکہ پرہیز کے بغیر تو علاج ناممکن ہے۔ قارئین! گو توانائی کی اس نیم مردہ حالت میں بھی حکمرانوں نے اس کی صحت یابی پر توجہ دینے کی بجائے اس کے ’’دوا دارو‘‘ سے نوٹ کمانے کی کوششیں کیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی سڑک پر بس اُلٹ جائے اور قریبی گائوں کے لوگوں میں سے کچھ جائے حادثہ پر پہنچ کر زخمیوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کی جیبوں سے بٹوے اور کلائیوں سے گھڑیاں اتارنی شروع کردیتے ہیں۔ انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا مگر صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں ہماری طرف سے بھی…… ایسے حالات میں جب کہ کارخانے اور کاروبار حتیٰ کہ ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹر تک بند ہو چکے ہیں۔ بجلی کی چوری کا نہ رُکنا بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟ صرف یہی نہیں ہم نے ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کسی پرہیز پر بھی عمل نہیں کیا۔ بارہا حکومت کی طرف سے اپیل کی گئی کہ مارکیٹیں‘ بازار‘ کاروبار رات جلد بند کر دیے جائیں اور علی الصبح شروع کر لیے جائیں تاکہ الیکٹریسٹی کی بجائے سورج کی روشنی استعمال ہو۔ سات‘ آٹھ‘ نو اور آخر دس بجے تک کا ٹائم دیا گیا۔ مگر ہم ہیں کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ امریکہ‘ انگلینڈ‘ کینیڈا اور پورے یورپ جیسے ترقی یافتہ اور جدید ممالک میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ان ممالک کے سارے عوام اپنے اپنے کام دھندے پر پہنچنے کے لیے سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں اور پھر سورج غروب ہونے تک واپس اپنے گھروں کو پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی جن کی خدانخواستہ خوشیوں کا سورج غروب ہونے کو ہے‘ اس کلیے پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ جبکہ ہمارے نبی کریمﷺ کا بھی مقدس فرمان ہے کہ ’’نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد جلد از جلد رزق کی تلاش کے لیے نکل جایا کرو‘‘۔ سرِ شام گھروں کو لوٹنے کا سبق تو ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود پرندوں سے سیکھ لینا چاہیے جو دن ڈھلتے ہی اپنے آشیانوں کو لوٹ آتے ہیں۔ توانائی کے دوسرے اہم حصے یعنی گیس کی طرف نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ شارٹ فال کے باعث مشینری بند‘ بھوک کی وجہ سے کاریگر ادھ موا ہو چکا ہے مگر ہم ہیں کہ کسی قسم کا پرہیز کرنا پسند ہی نہیں فرماتے۔ نہ سی این جی اسٹیشن بند کرنے کو تیار ہیں نہ ہی گیس کی چوری چھوڑتے ہیں۔ بلکہ ایسی کسی لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمہ کے ہاتھوں پکڑے جائیں تو اُلٹا بندوقیں نکال کر سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور سیاسی اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے اُلٹا پولیس بلا کر محکمہ کے اہلکاروں پر ڈکیتی کی ایف آئی آر بھی کٹوا دیتے ہیں۔ یعنی ؎ کہاں تک نام گنوائیں سبھی نے ہم کو لوٹا ہے بھروسا کر لیا جس پر اسی نے ہم کو لوٹا ہے ہماری بے بسی پر مسکرا کر دیکھنے والو تمہارے شہر کی اک اک گلی نے ہم کو لوٹا ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں