"SAC" (space) message & send to 7575

ذرا احتیاط سے!

متحد رہنے میں ہی ہر ایک کا بھلا ہے‘ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ ہمیں ہولناک بحرانوں کا سامنا ہے اور یہی ہماری جغرافیائی صورتِ حال کا تقاضا ہے۔ ان معاملات کو پھر کبھی زیر بحث لائیں گے‘ فی الحال یکجہتی کو لاحق خطرات پر گفتگو کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا ملک جہاں زیادہ صوبے یا ریاستیں پائی جاتی ہوں اور مختلف قومیں‘ نسلیں یا مذاہب کے باشندے آباد ہوں وہاں حکومت ہر قانون قاعدہ طے کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لیتی ہے اور اپنی قوم کو متحد رکھنے کے لیے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتی ہے مگر جہاں ’’اندھوں کا میلہ‘‘ سجا ہو وہاں ٹھوکر لگنے کے بعد ہی شور اٹھتا ہے لیکن یہاں تو یہ بھی نہیں ہوا؟ آدھا حصہ کھو جانے کے باوجود ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ عقل مند کاروباری اپنے بچے کے پہلا نقصان اٹھانے پر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب یہ کاروبار سیکھ گیا لیکن ہم جوں کے توں ہیں۔ ہماری اسی بے حسی کو دیکھتے ہوئے بیرونی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف پختون آگ کی لپیٹ میں ہیں تو دوسری جانب بلوچ پریشانی میں غرق… نہ سندھ میں سکون نہ پنجاب میں چین۔ منصوبہ ساز غیروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے… غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہاری پر جاگیردار کے ظلم کی کہانی شیطان کی آنت بنتی جا رہی ہے۔ اقلیت کے اکثریت پر ستم میں اضافہ… ارے یہ کیا؟… کون دیکھے گا؟… کون احساس کرے گا؟… کس نے قائداعظم کے ’’اتحاد‘‘ کا سبق یاد کرانا ہے؟… آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟… ایجوکیشن؟… جی ہاں تعلیم… مگر ہر ایک کے لیے ایک… یعنی ایک نصاب… ٹاٹ والے سرکاری سکول اور پوش علاقے کے مہنگے ترین نجی سکول کا۔ ابھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا کہ ملک دشمن قوتوں نے تعلیم کو صوبائی تعصب پھیلانے کا ذریعہ بنا ڈالا۔ محکمہ تعلیم کو صوبائی حکومتوں کے سپرد کر کے نصاب کا تعین اور اس کی چھپائی کا کام بھی صوبوں کو سونپ دیا۔ کسی ذی شعور کے ذہن میں یہ نہ آیا کہ کتابیں آہستہ آہستہ قومی زبان چھوڑ کر صوبائی زبانیں اختیار کر لیں گی۔ قومی زبان بتدریج ایک حصے تک محدود رہ جائے گی۔ نصاب میں تضاد نظر آنا تو شروع ہو گیا اب اللہ نہ کرے یہ دل و دماغ تک پہنچ جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ سمیت کوئی بھی صوبوں‘ قوموں اور زبانوں میں بٹا ہوا ملک ہو وہاں تعلیمی نصاب کی ذمہ داری وفاق کے سپرد ہی ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو یکجا رکھا جا سکے۔ محکمہ صحت ادھوری پلاننگ کے ساتھ صوبوں کے سپرد کردیا گیا۔ تازہ نقصان آپ کے سامنے آ چکا ہے۔ وبائی بیماریوں کے پھیلائو کی وجہ پیش خدمت ہے۔ حفاظتی ٹیکے جو ہمیں سپر پاور کی طرف سے امدادی شکل میں ملتے ہیں چند برسوں سے یہاں پہنچنے کے باوجود واپس لوٹ جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی طرف سے دی جانے والی امداد زیادہ تر وفاق کے سپرد کی جاتی ہے‘ ہونا بھی یہی چاہیے کہ بجائے گھر گھر ’’کھجل‘‘ ہونے کے ایک ہی جگہ معاملہ طے پا جائے۔ مگر ہمارے ہاں محکمہ صحت صوبوں کے حوالے کیے جانے کے بعد نہ وفاق نے یہ امداد وصول کرنے کی ذمہ داری لی‘ نہ صوبوں تک حفاظتی ٹیکے پہنچے‘ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کئی معصوم جانیں خسرے کا شکار ہو چکی ہیں اور تماشا گر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ بیماری ہے جو پیارے وطن سے تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ دنیا آگے کو جا رہی ہے اور ہم بدقسمتی سے اپنی گاڑی کو بیک گیئر لگائے بیٹھے ہیں۔ توانائی کے اس ہیبت ناک بحران میں بجلی اور گیس کی بے ترتیب اور غیر مساوی تقسیم سے بلند ہونے والی آوازوں میں جو فرق پیدا ہو رہا ہے وہ تو آپ سن ہی رہے ہیں‘ رہی سہی کسر ہمارے الیکشن سے برآمد شدہ ڈیزائن نے نکال دی۔ ہر صوبے میں مختلف سیاسی پارٹی… اور سب اپنی مرضی کے مالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کرسیوں پر براجمان ہو رہے ہیں… اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ بلوچستان کی شکست پنجاب کی ہار ہے اور خیبرپختونخوا کی پسپائی سندھ کی ہزیمت۔ سابقہ حکومت کی محکموں کے اختیارات کی بندر بانٹ سے پیدا ہونے والی اس تشویشناک صورت حال میں سب سے زیادہ ذمہ داری موجودہ وفاق پر ہوگی۔ وفاقی حکومت کو وفاق کی علامت بننا ہوگا۔ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ محبت تقسیم کر کے ہمدردی وصول کرنا ہوگی۔ حکومت بناتے ہوئے اور حکومت کرتے ہوئے اپنی طاقت میں حصے دار بنا کر پسے ہوئے لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ سب کو ایک ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔ خبردار رہنا ہوگا کہ ساری طاقت ایک ہی جگہ نہ جمع کر لی جائے۔ ساری وزارتیں کچن کیبنٹ کے حوالے ہی نہ کردی جائیں۔ انہیں صوبوں میں تقسیم کیا جائے۔ وزارت عظمیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی جیسی دو اہم ذمہ داریوں کا ایک شہر… اور وزیروں کی فوج کا صرف ایک ہی صوبے سے چنائو…… کیا مناسب ہے؟ میاں نوازشریف کے دیرینہ اور وفادار ساتھیوں کو جاں سپاریوں کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے مزید قربانیاں دینا ہوں گی اور دوسروں کو مواقع مہیا کرنے ہوں گے۔ نون لیگ کو سارے صوبوں کی زنجیر بننا ہوگا… گلے شکوے بھلا کر… غم و غصہ سے آزاد ہو کر‘ کہ یہی وطنِ عزیز کی ضرورت ہے۔ قوم کو یقین ہے کہ نوازشریف‘ جو ایک برگزیدہ اور محب سیاست دان ہیں اور انہی کی پارٹی کو عوام نے سب سے بڑا مینڈیٹ بھی دیا ہے‘ ان تمام الجھنوں کو سلجھانے میں کامران ہوں گے۔ اُس کے دل کا صدق ہے اُس کی نظر سے آشکار اُس کے دم سے ہے سیاست کو بھی حاصل اِک وقار

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں