"SAC" (space) message & send to 7575

’’شہبازی پرواز‘‘

’’نواز شریف کا تالیوں کی گونج سے قومی اسمبلی کے ہال میں استقبال کیا گیا‘‘ اور ’’غداری کی پرویز مشرف کو کیا سزا دی جائے: جسٹس جواد خواجہ‘‘ دو دن پہلے یہ دو سطریں اخبار کے ایک ہی صفحے پر پڑھنے کو ملیں‘ ذہن میں خیالات کی ایک جنگ شروع ہو گئی مگر کچھ کہنا اس لیے ضروری نہیں کہ یہ دونوں خبریں خود اپنے منہ سے بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ 2007ء میں وطن واپسی کے بعد شریف برادران کو جم کر اپنی بکھری ہوئی سیاسی بساط کو سمیٹنے اور تمام مہروں کو درست مقامات پر رکھنے کا موقع ہی نہ ملا؛ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف پنجاب میں ہی حکومت بنا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف نے جتنا کام پنجاب میں کیا پاکستان کی وفاقی اور تینوں صوبائی حکومتوں سمیت کسی کو کرنا نصیب نہ ہوا۔ درست سمت میں چلتے ہوئے خادم اعلیٰ کو ضدی بچہ‘ ظالمِ اعلیٰ‘ جنگلہ بس اور نہ جانے ایسے کن کن خطابات سے نوازا جاتا رہا‘ مگر آفرین ہے میاں شہباز پر کہ ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے عظیم قائد کے عظیم قول ’’کام‘ کام اور صرف کام‘‘ پر کاربند رہے۔ اس کا نتیجہ حالیہ عوامی انتخابات میں سب نے دیکھ لیا: زمانہ دیدہ و دل فرشِ راہ کرتا ہے کسی بھی فن میں کوئی باکمال ہو تو سہی گزشتہ دورِ حکومت میں شہباز شریف کی کارکردگی کا مثبت ردعمل یہ سامنے آیا کہ سندھ میں سید قائم علی شاہ نے نئی وزارتِ اعلیٰ کا آغاز ہی پولیس اسٹیشن کے ہنگامی دورے سے کیا اور ایس ایچ او کی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے ’’خادمِ اعلیٰ والی انگلی‘‘ ہلا ہلا کر پولیس والوں کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے پر کڑے نتائج بھگتنے کی خبر سنائی۔ کاش وہ گزشتہ دورِ حکومت میں بھی یہی ’’شریفی رویہ‘‘ اختیار کرتے تو اس شہر میں گولیوں کا نشانہ بننے والے بے گناہوں کی تعداد ساڑھے چھ ہزار سے کہیں کم ہوتی اور روشنیوں کا یہ عظیم شہر تاریکیوں میں ڈوبتا اور نہ ہی منیر نیازیؔ کے اس شعر کی صورت اختیار کرتا: گھر دیاں کندھاں اُتے دِسن چِھٹاں لال پھوار دیاں ادھی راتیں بوہے کھڑکن ڈیناں چیکاں مار دیاں خبریں بتا رہی ہیں کہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اپنے اپنے صوبوں میں اسی ’’شہبازی پرواز‘‘ کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ انتہائی خوشگوار امر ہے‘ اچھے اعمال بے شک کسی دشمن کے ہی کیوں نہ ہوں انہیں اختیار کر کے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہماری طرف سے آنے والے وقت میں اچھے کام کرنے پر ایڈوانس مبارکباد۔ میاں شہباز شریف کو اب ایک قدم آگے بڑھ کر کارکردگی دکھانا پڑے گی۔ صرف پرانی تنخواہ پر ہی کام کر کے وہ توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کی سابقہ حسنِ کارکردگی کے مُقلّد تو اب ان کے مخالفین بھی بن چکے ہیں۔ ہم نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز صاحبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کے آمر کے خلاف بغاوت کی تھی اور میاں نوازشریف کی اسیری کے دن نہ صرف اپنے مجازی خدا کی عبادت میں گزارے بلکہ ہیر سیال کی طرح اپنے رانجھے کی خاطر وقت کے تمام کھیڑوں کے ساتھ بھی نبردآزما رہیں۔ وہ لوگ جو اس وقت سیاسی تھالی کے بینگن بنے اور لڑھک کر آمر کی گود میں جا بیٹھے اور وہ منافقین جو یوں تو نوازشریف کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے رہے مگر آمرانہ دور میں میاں صاحب کے جدہ سے واپس آنے پر پولیس افسران کو ’’منافق پیکیج‘‘ کی آفر کرتے رہے کہ انہیں دو تین دن کے لیے حوالات کے سپرد کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیڈر کا استقبال نہ کرنے کا عذر پیش کر سکیں۔ یقینا ان سب کے لیے شرم اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا مقام ہے۔ بقول بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیرؔ ؎ پُٹھے چالے لگ نہ ایویں سمجھ فقیرا چال بھیت پرائے دَسن والا بھیتی رکھ نہ نال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف نے بھی ان حالات سے کچھ سیکھا؟ میرا خیال ہے کہ اس کا جواب تو وہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کا عندیہ دے کر اور وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان دوسری پارٹی کے سپرد کر کے دے چکے ہیں۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں