جناب ممنون حسین صدرِ پاکستان منتخب ہو چکے ہیں۔ پچھلے چند ہفتے اخبارات میں ان کا ذکر کثرت سے ہوتا رہا۔ ان کے حق اور مخالفت میں لکھا اور بولا گیا جو میری بھی بصارت و سماعت سے گزرا۔ انہیں صدر کے عہدے کے لیے موزوں قرار دینے والے لکھاری بھی لکھنے کے لیے ممنون صاحب کی جامہ تلاشی لیتے رہے اور غیر مناسب سمجھنے والے بھی دلیلیں ڈھونڈنے کے لیے دائیں بائیں ہاتھ مارتے رہے مگر دونوں دھڑے اپنے اپنے دیکھنے اور سننے والوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ ’’سرکار‘‘ میں کوئی ایسی خامی سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے انہیں نااہل سمجھا جائے اور نہ ہی کوئی منفرد خاصیت نظر آئی جس کے باعث ان کے چنائو پر ن لیگ کو داد و تحسین سے نوازا جائے‘ ماسوائے اس خوبی کے کہ جناب ممنون محترم نوازشریف کے ’’ممنون‘‘ ہیں۔ مگر وزیراعظم نوازشریف کی عوامی قبولیت اور صدر کے عہدے کی آئینی حیثیت کو مدنظر رکھیں تو اس چنائو کے لیے اسی ایک خوبی کی ضرورت تھی لہٰذا ہمیں اس ’’تو تو میں میں‘‘ میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اس عہدے میں رکھا ہی کیا ہے ماسوائے آل پاکستان کبڈی ٹورنامنٹ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کے۔ ہمارے ’’بچپن کے صدر‘‘ فضل الٰہی چودھری کی ہمیں ایک ہی بات یاد ہے۔ وہ گوجرانوالہ میں ہونے والے ایسے ہی ایک ٹورنامنٹ کے مہمانِ خصوصی تھے اور مشہور دھمالیے ’’جہاناں پینتی‘‘ نے اپنی پوری دھمال ٹیم کے ساتھ انہیں سلامی پیش کی تھی۔ جہاناں پینتی وفات پا چکے ہیں لہٰذا ہم محترم ممنون حسین کو سلامی پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں لنمبی زندگی عطا فرمائے۔ (آمین) گورنر پنجاب کے عہدے پر چودھری سرور آف برطانیہ کا انتخاب بھی ہو چکا۔ چودھری صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ محترم شہباز شریف کے ’’ممنون‘‘ ہیں۔ اس لیے صوبے میں وہی عہدہ حاصل کر سکے جو ممنون صاحب کو وفاق میں ملا۔ انشاء اللہ چودھری سرور صاحب بھی اوپر تک جائیں گے کیونکہ ممنون صاحب بھی پہلے گورنر بنائے گئے تھے اور اب صدر۔ بلکہ سرور صاحب یہ سفر جلدی طے کریں گے کیونکہ ممنون صاحب تو صرف ن لیگ کے ہیں اور چودھری سرور صاحب ہر لیگ کے ’’ممنون‘‘ ہیں۔ ہم چودھری صاحب کو دوہری سلامی پیش کرتے ہیں کیونکہ محترم ایک تو ہمیں اوورسیز پاکستانی بھائیوں کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور دوسرا پنجاب کی گورنری کے عشق میں اپنی برطانوی شہریت تیاگ کر آئے ہیں۔ ہم اگر اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے ہر مشکل وقت میں کروڑوں کی امداد اور زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں تو وہاں کا ایک فارغ سیاستدان کیوں نہیں؟ چودھری صاحب کئی سال بھرپور حصہ لینے کے بعد آج کل ولایتی سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اب ان کی جگہ ان کے برخوردار نے سنبھال لی ہے۔ بہرحال… ’’نواں نو دن پرانا سو دن‘‘… نوازشریف صاحب کی ٹیم اب مکمل ہو چکی… ہاں اس میں وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کا بھی اضافہ ہوا ہے جنہوں نے آتے ہی جوشیلے بیانات سے اپنے آپ کو ’’بجلی پہلوان‘‘ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ان کی پہلی بڑھک کچھ یوں تھی کہ’’ جس واپڈا آفیسر کے علاقے میں بجلی چوری پکڑی گئی اُسے بلوچستان بھیج دیا جائے گا‘‘۔ اُن سے عرض ہے کہ انہیں بیان دیتے ہوئے جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے۔ بھائی بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ وہاں تو اس وقت رول آف لاء کی زیادہ ضرورت ہے۔ بجلی چور مافیا کا ٹھکانہ صرف جیل ہے اور اُن کی سزا کے لیے مزید سخت سے سخت قوانین بنانے چاہئیں؛ کیونکہ اگر بجلی چوری نہ رُکی تو یہ جس مقام تک پہنچ چکی ہے میاں نوازشریف کی والہانہ محنت رائیگاں جائے گی۔ دو ایک دن پہلے شہر گوجرانوالہ کے ڈیلٹا روڈ پر موجود مشہور و معروف اور وسیع و عریض دینی مدرسے کی انتظامیہ بجلی چوری کرتے پکڑی گئی۔ اس مسجد کے ساتھ ملحقہ مدرسے میں پانچ ایئرکنڈیشنرز کے علاوہ ایک آٹا پیسنے والی چکی بھی چوری کی بجلی سے چلائی جا رہی تھی۔ پکڑے جانے پر امام صاحب چھاپہ مار ٹیم سے یوں مخاطب ہوئے ’’مجھے کیوں پکڑتے ہو یہ اللہ کا گھر ہے جائو اُس سے پوچھو‘‘ کیا اس خوفناک سوچ سے ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ ہمارے ایمان کو بھی خطرہ نہیں؟ اگر ہمارے رہبر ہی راہزنی پر اُتر آئیں تو پھر ہماری منزل کیا ہوگی؟ میاں نوازشریف جس مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئے ہیں انہیں آتے ہی بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی بجائے بجلی چوری اور لائن لاسز پر قابو پا کر بجلی کی پیداوار اور واپڈا ریونیو میں اضافہ کرنا چاہیے کیونکہ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ان کی مقبولیت کے لیے مضر ہے اور ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ۔ ہمارے خیال میں اگر نوازشریف صاحب بجلی چوری پر قابو پا لیں تو صرف ممنون حسین ہی نہیں ہر شریف آدمی اُن کا ممون ہوگا کیونکہ بجلی چوری سے ملکی توانائی میں جو کمی واقع ہوتی ہے اُسے شرفا اور غربا کا خون نچوڑ کر پورا کیا جاتا ہے۔