'' پْترپانویں انھّے ہون‘ کانے ہون‘ لنگڑے ہون ‘ لْولے ہون‘ ہْندے شرطیہ مِٹھے نیں‘‘ ... (''بیٹے بھلے اندھے ہوں یا لنگڑے... ہوتے شرطیہ میٹھے ہیں‘‘)۔
یہ وہ مْکالمہ ہے جو مرحوم ببو برال نے ڈرامہ ‘‘ شرطیہ مِٹھے‘‘ میں میرے بولنے کے لئے تحریر کیا۔ بیس سال گْزرنے کے باوجود آج بھی میرے دل و دماغ میں اس ڈائیلاگ کی مِٹھاس روز اوّل کی طرح قائم ہے۔ خاص طور پر اس لمحے جب کوئی سنگی ساتھی خوشی سے کِھلے ہوئے چہرے کے ساتھ اللہ پاک کی طرف سے نرینہ اولاد جیسا انمول تْحفہ ملنے کی خوشخبری سْناتا ہے...
یا پِھرکسی ایسی ناگہانی گھڑی یہ فقرہ اندر سے خاموش چیخ کی طرح نکلتا ہے جب کوئی باپ لاش سے زیادہ بے جان جسم کے ساتھ اپنے کسی بچے کی میت پر بیٹھا ہوا نظر آئے...
بیمار بچے کو اْٹھا کر ہسپتال کے کسی برآمدے میں والدین کو تڑپتے، بھاگتے، دوڑتے دیکھ لوں تو یہی ڈائیلاگ میرے اندر لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے...
کسی بے اولاد کی اْداس آنکھوں میں جھانکنے سے یہی مکالمہ آنسو بن کر آنکھوں سے باہر آجاتا ہے... اور یہ آنسو اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ سر اللہ تعالی کے فیصلوں کے آگے جھک جاتا ہے...
ان مواقع پر ایسی کیفیات ہر اس شخص کی ہوتی ہیں جس کے سینے میں دل دھڑک رہا ہواور کیا ہے کہ دل تو جانور کے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ تبھی تو ہم نے کئی دفعہ اولاد کی جان بچانے کے لئے ممولے کو باز سے ٹکراتے ہوئے دیکھا‘ بلی کو خونخوار بھیڑیے کے جسم میں دانت گاڑتے اور ہرنی کو شیر سے پنجہ آزما ہوتے دیکھا... کہ اولاد تو جانور کو بھی اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے...
لیکن بے حسی کے اس دور میں ہر چند دن بعد ہمیں اس طرح کی خبر بھی پڑھنے یا سننے کو ملتی ہے کہ...
''باپ نے فاقوں سے تنگ آ کر تین بچوں کو نہر میں پھینک دیا‘‘... ''خاوند کے ظلم سے تنگ عورت نے اپنے بچوں کو زندہ جلا دیا...''بھوکے بچے دیکھے نہیں جاتے تھے...ماں کا بیان ‘‘ ...''بھوک سے تنگ والدین بچوں کو فروخت کرنے سڑک پر نکل آئے‘‘...''بھوک دو ننھی جانیں لے گئی‘‘...''باپ نے بچوں کو زہر دے دیا‘‘...
جانور سے بھی بدتر ہیں وہ لوگ جو ربِ ذوالجلال کی طرف سے بخشی ہوئی اس نعمت کو اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں پھینک دیتے ہیں... کیا ایسے لوگ اپنے آپ کو اولاد کا رازق سمجھتے ہیں ؟ (نعوذ باللہ)... کیا یہ لوگ فاقوں کو اپنی نا اہلی سمجھتے ہیں ؟... کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہی ان بچوں کا پیٹ بھرنا تھا... ہم ناکام ہو چکے...اور اب ان بچوں کا زندہ رہنے کوئی حق نہیں؟...
یقیناً ایسی سوچیں دل و دماغ میں ایمان کی کمزوری اور اللہ تعالی سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی جہالت سے چْھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے رب سے ناتہ جوڑنے کی ضرورت ہے، مذہبی آگہی کی ضرورت ہے‘ کہ اسلام واقعی مکمل دین اور قْرآن پاک بلا شْبہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس المناک صورتحال کے حوالے سے قرآن کریم میں رب کریم نے کئی احکامات جاری کئے۔ سورۃ الانعام میں فرمایا...
''اور غْربت‘ تنگ دستی کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیوں کہ تْمہیں اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں‘‘
پھر سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا...
''اور اپنی اولاد کو مْفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا کیونکہ ان کو اور تم کوہم ہی رزق دیتے ہیں‘ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گْناہ ہے‘‘
ہمیں ان عذابوں سے بچنے کیلئے اس کے آگے جھکنا پڑے گا ‘اسی کے در کا سوالی بننا پڑے گا کہ اسی کا فرمان ہے:
''میں تنگی اور سختی میں مبتلا اس لیے کرتا ہوں کہ شاید لوگ عاجزی پر اْتر آئیں ‘‘
اگلی نسلیں قوموں کے لئے راستہ ہوتی ہیں۔ آگے نکلنے کے لئے راستے کی ہی نہیں اس کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ان کے پیٹ کی بجائے کردار کی فکر کرنی چاہئے۔ ان کی صرف تعلیم ہی نہیں تربیت کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اعلیٰ تربیت یافتہ قوم ہی معاشرے سے مفلسی اور تنگ دستی کا خاتمہ کرتی ہے۔ ایک اور جگہ سورۃ الانعام میں ہی اس پاک ذات نے فرمایا :(مفہوم)
''بچوں کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا بھی قتلِ اولاد کے مْترادف ہے‘‘
ربِ کریم کی نعمتوں کی اہمیت کا احساس ہی ہمیںشْکر کے لئے اس کے در تک پْہنچاتا ہے۔ پھر اللہ تعالی کی رحمتوں کا شکر کرنا دراصل مزید طلب کا اظہار ہے اور طلب سے پہلے سلیقہِ عرضِ طلب کا شْکر ادا کرنا بھی ضروری ہے:
مندے تھاں لانواں جے میں تیرا دِتا
مندے لائے نوں ویکھ کے فیر دینے
نئیں انت مولا تیریاں دینیاں دا
جے میں پامنگناں‘ تے توں سیر دینے