"SAC" (space) message & send to 7575

’’سُشما اُن کی، سرتاج ہمارے‘‘

ہندوستان کی ''خارجہ لیڈی‘‘ اچانک پاکستان داخل ہوئیں تو پاکستان کے ''داخلی ہندوستانی‘‘ خوشی سے جھوم اُٹھے اور ایک مرتبہ پھر پاکستانیوں کے دلوں میں ہندوستان کی محبت ڈالنے کی سر توڑ کوششیں کرنے لگے۔ تقریباً ایک صدی کے ہمارے ''سرتاج‘‘ خارجہ لیڈی کو اس گرمجوشی سے ملے کہ ایک لمحے کے لیے ان کے ''سرتاج‘‘ لگنے لگے‘ حالانکہ ان کو ہندوستانی ''خارجہ لیڈی‘‘ سے ملتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے تھا کہ وہ پاکستان کے ''سرتاج‘‘ ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے بھولپن کے ہاتھوں ہندوستانی مکّاری کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں‘ اور فوری طور پر ''ہاں‘‘ کر بیٹھتے ہیں۔ جب سارے مُحلے میں اس کا خوب چرچا ہو جاتا ہے تو پھر ہندو بنیا رشتے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیا عزت دار اور غیرت مند لوگ اس طرح‘ اور ایسے لوگوں سے رشتے داری کیا کرتے ہیں کہ ہر دفعہ انکار ہر دفعہ انکار... اور پھر ''نکی جئی ہاں‘‘ پر تیار... ہمارے صرف بزرگ ہی نہیں سارے کے سارے ''باراتی‘‘ بھی ایسے ہی معصوم اور بھولے ہیں کہ ''ہاں‘‘ ہوتے ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں... شاپنگ کے لیے نکل پڑتے ہیں... کپڑوں پر تِلّہ گوٹہ لگانا شروع کر دیتے ہیں... درزی سے رابطہ کر لیتے ہیں... ہم بھول جاتے ہیں کہ جب تیاری مکمل ہونے کے قریب ہو گی تو انکار ہو جائے گا۔ اس مرتبہ بھی ہم نے یہی کیا۔ ہم بھول گئے کہ جن سے ہم رشتے داری کے لیے پھر سے تیار ہو گئے ہیں‘ انہی لوگوں نے چند دن پہلے ہماری طرف سے رشتے کے لیے گئے ہوئے ''چاچے کرکٹ‘‘ کا منہ کالا کر دیا تھا۔ بھائی کیا اس رشتے داری کے بغیر گزارا نہیں ہوتا یا اس کے علاوہ ہمیں کوئی رشتہ نہیں ملتا؟ جو ہم اپنا وقت ضائع کرنے کے لیے ہر دفعہ تیار ہو جاتے ہیں... اور ہر دفعہ ہمارے اندر سر اُٹھانے والی ''ہمسایہ گیری‘‘ کو منہ کی کھانی پڑتی ہے...
اب اگر ایک لمحے کے لیے یہ سوچ لیا جائے کہ ''اک گناہ اور سہی‘‘ تو پھر کم از کم اتنا تو دیکھا جائے کہ کس بل بوتے پر؟ کیا ہمارا ''متوقع رشتے دار‘‘ ان تمام وجوہ کو اپنی غلطیاں مان رہا ہے‘ اور انہیں ختم کرنے پر آتا ہے‘ جن کے سبب ہمارے درمیان ''رشتے داری‘‘ نہیں ہو پا رہی؟... یعنی کیا اس نے ہماری ''شہ رگ‘‘ (کشمیر) سے انگوٹھا اٹھا لیا ہے؟... کیا یہ ہمارے ''صحن‘‘ (بلوچستان) میں تانک جھانک سے باز آ گیا ہے؟... کیا اس نے محلے کے ایک گھر (افغانستان) کی چھت پر چڑھ کر ہمارے گھر میں پتھرائو بند کر دیا ہے؟... کیا اس نے ہمارے دروازے (بارڈر) پر فائرنگ کرنا چھوڑ دی ہے، جس سے ہر دوسرے دن ہمارے گھر کے افراد مارے جاتے ہیں؟... کیا یہ ہمارے بچوں کو کھیل میں ''باری‘‘ دینے کے لیے تیار ہے‘ جو پہلے سے طے شدہ ہے‘ اور جس کی منسوخی میں ہمارا اربوں روپے کا نقصان ہے؟... کیا یہ ہمارے مدبرین کو دہشت گرد کہنے سے باز آ چکا‘ اور اب ان کی حوالگی کا مطالبہ چھوڑ دے گا؟... 
اگر ایسا کچھ بھی نہیں تو پھر کیسے ہو گی یہ ''رشتے داری‘‘...؟ ہم کیوں چل پڑے یہ بندھن باندھنے؟ اب کیا گارنٹی ہے کہ وقت ضائع نہیں ہو گا؟... ''سُشما کے والدین لاہور کے علاقے دھرم پورہ میں رہتے تھے‘‘ کیا یہ خبر کافی ہے ان کے ساتھ رشتہ کرنے کے لیے؟...
دونوں طرف کے بڑے چُھپ چُھپ کر مل رہے ہیں۔ میڈیا سے چُھپ کر، دنیا والوں سے چُھپ کر، جس کا انکشاف خود ایک معروف ہندوستانی صحافی برکھا دت نے اپنی کتاب "The Unquiet Land" میں کیا کہ 2014ء میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں میاں نواز شریف اور نریندر مودی کی ایک خُفیہ ملاقات ہوئی، جو ایک گھنٹے پر محیط تھی اور جسے سب سے چھپایا گیا تھا۔ اب اسی ماہ پیرس میں دوبارہ دونوں طرف کے بڑوں نے خفیہ ملاقات کی‘ اور بقول ''مُخبر‘‘ کے اس مُلاقات کو مودی کی فرمائش پر چھپایا گیا‘ اور اس منظر کو پاکستانی وفد کے ایک رکن نے اپنے موبائل فون کے کیمرہ میں محفوظ کر لیا‘ جو بعد میں فون سے فون سفر کرتے ہوئے ٹیلی ویژن تک بھی پہنچ گیا۔ کیا مجبوری ہے مودی کی جو وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کو چھپانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اپنی سیاسی پارٹی بی جے پی کو ''وچن‘‘ دے کر آئے ہیں کہ پاکستان سے دور رہیں گے اور دوسری طرف چند ''بڑوں‘‘ کے پریشر سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ 
نریندر کی میلے دل سے ہی کی گئی ملاقات سے ہم کیوں جذباتی ہو جاتے ہیں؟... جذباتی نہیں حقیقی رشتہ قائم کرنا ہو گا‘ اور حقیقی رشتے دلوں کو صاف، سارے ''شگن‘‘ پورے، اور ساری بدشگونیاں دور کر کے استوار کیے جاتے ہیں،... پہلے ہندوستان کو اپنی ناپاک مداخلت سے ہمارے علاقے پاک کرنے ہوں گے پھر ہو گی یہ رشتے داری ورنہ... ''سُشما ان کی اور سرتاج ہمارے‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں