"SAC" (space) message & send to 7575

غیر ضروری، ضروری

گائوں کا ایک نوجوان ''لبھا‘‘ ڈی سی لگنے کے شوق میں اپنے گائوں میں بیٹھا کئی سال مقابلے کے امتحان کی تیاری کرتا رہا۔ اللہ اللہ کر کے امتحان کا دن آ پہنچا۔ لبھا امتحان کے وقت کے مطابق لاری اڈے پہنچ کر بس میں جا بیٹھا‘ جو اس کے گائوں سے شہر کی طرف ہر ایک گھنٹے کے بعد چلتی تھی۔ جونہی بس چلنے لگی ''آئندہ ڈپٹی کمشنر‘‘ کے پیٹ میں مروڑ اٹھا۔ یکدم سوچا کہ اگر شہر میں رفع حاجت کے لئے کوئی جگہ ہی نہ ملی تو بے عزت ہو جاؤں گا کیونکہ ''آئی کو کون ٹال سکتا ہے‘‘ فوراً بس سے نیچے اترا اور دوڑتا ہوا کھیتوں میں جا گْھسا‘ جہاں گائوں کی عزت کا رکھوالا سات آٹھ فٹ لمبا کماد کھڑا تھا۔ ''حاجاتِ ضروریہ‘‘ سے فارغ ہو کر واپس بس سٹاپ پہنچا تو پہلی بس نکل چْکی تھی۔ بے چارہ دوسری بس کے لئے انتظار کرنے لگا، کبھی اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھتا اور کبھی دور سڑک پر اس طرف جدھر سے لاری آنا تھی۔ بس تو ایک گھنٹے بعد ہی آئی مگر مستقبل کے ڈپٹی کمشنر کو وہ ایک گھنٹہ ایک سال کے برابر لگا۔ آندھی کی طرح چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھا وہ یہی سوچتا رہا کہ بس کی وہ رفتار نہیں جو ہوا کرتی ہے حالانکہ گاڑی اتنی تیز تھی کہ بریک لگاتے لگاتے سٹاپ سے کافی آگے نکل گئی؛ تاہم لبھے کی تیاری ایسی تھی کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر جیسے اعتماد کے ساتھ اترا اور قدرے دوڑتا ہوا امتحانی مرکز تک پہنچا مگر دیر ہو چکی تھی۔ گیٹ پر کھڑے سپاہی نے ''ڈپٹی کمشنر‘‘ کو اندر نہیں جانے دیا۔ ڈی سی نے بھی کم نہ کی‘ دل ہی دل میں اس گیٹ کیپر کو خوب ڈانٹ پلائی مگر اس ڈانٹ کا اس سپاہی پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا؛ البتہ اْس کی اِس لاپروائی سے ''ڈپٹی کمشنر‘‘ وہاں کھڑے کھڑے ہی واپس ''لبھا‘‘ہو گیا۔ گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگا ''اماں اگر پیٹ میں مروڑ نہ اْٹھتا تو آج تیرا لبھا ڈی سی ہو گیا تھا‘‘
قدرت کا قانون ہے کہ حاجاتِ ضروریہ کے آگے ڈپٹی کمشنر کی بھی کوئی اہمیت نہیں مگر ہمارے ملک کا قانون ہے کہ ہمارے ہاں ڈپٹی کمشنر بھی ان ضروری حاجات کی اہمیت کو نہیں مانتے۔ اسی لئے گائوں کیا بڑے بڑے شہروں میں‘ جہاں عوام کی دوسری ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے‘ اور انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے‘ وہاں حاجاتِ ضروریہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیں گائوں کے سادہ لوح کیا‘ شہروں کے ماڈرن اور پڑھے لکھے لوگ بھی سرعام سڑکوں کے کنارے، خالی پلاٹوں یا دیواروں کے ساتھ لگے حاجاتِ ضروریہ سے ''نبرد آزما‘‘ نظر آتے ہیں‘ اور عوامی جہالت اور حکومتی غیر ذمہ داری کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ''DC‘‘ صاحبان کے عہدے کے ساتھ ''O‘‘ لگا کر اْنہیں ''Commissioner Deputy‘‘ سے ''District coordination officer ‘‘ بنا دیا گیا اور نام بڑا کر کے اختیارات چھوٹے کر دیے گئے۔ انتظامات کے حوالے سے یہ لوگ ضلعے کے گورنر مانے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اب عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے کام ہی رہ گئے ہیں۔ یہ لوگ اب اکثر شہروں میں پودے اور چوراہوں میں ڈیزائن یا ماڈل بنوا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن شاید انہیں سڑک کے کناروں اور دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لوگ نظر نہیں آتے جبکہ یہ شرمندگی میں ڈوبے ہوئے لوگ ہر گزرنے والے کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنے ہوتے ہیں۔ 
تقریباً تین دہائیاں پہلے تک حکمران اور منتظمین کو اس انسانی ضرورت کا کچھ نہ کچھ احساس تھا۔ ہمیں لاہور اور کراچی میں کہیں کہیں ''پبلک لیٹرین‘‘ نظر آتی تھی لیکن آہستہ آہستہ بے حسی نے ہمارا ایسا گھیرائو کیا کہ ہم اس اہم ضرورت کو بھی غیر ضروری سمجھنے لگے۔ جو چند ایک لیٹرینیں تھیں وہ بھی گرا دی گئیں۔ دوسری طرف قبضہ گروپ کا معیار بھی ایسا گرا کہ انہوں نے لیٹرین پر قبضہ کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ 
وہ حکومتیں جنہیں عوام سے داد لینے کے بجائے ان کی مشکلات حل کرنے کا احساس ہے‘ اس انسانی ضرورت کو سمجھتی ہیں۔ ان ملکوں میں جہاں کہیں رفع حاجت محسوس ہو‘ وہیں چند قدموں کے فاصلے پر یقیناً اس کا بندوبست موجود ہے جبکہ وطنِ عزیز میں ایسے عوامی مقامات پر‘ جہاں سارا دن صرف مردوں کا ہی نہیں‘ خواتین کا بھی جمِ غفیر رہتا ہے جن میں کورٹ کچہریاں، مارکیٹ اور بازار حتیٰ کہ کئی سکول و کالج بھی شامل ہیں‘ رفع حاجت کا کوئی بندوبست نہیں۔ اس مسئلے پر لکھنے کا خیال تب آیا جب ایک دوست نے آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا کہ ''دو مشرقی خواتین سڑک کے کنارے شرم سے چکنا چور اپنی چادر سے پردہ کئے کھڑی تھیں اور اس کے پیچھے پاکستانی قوم کی ایک بیٹی شرمندگی میں ڈوبی رفع حاجت میں مصروف تھی‘‘۔ 
ہمارے ہاں انتظامی امور کی حالت یہ ہے کہ ایک طرف گاڑی والوں کو سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف چھ چھ شہریوں کو بٹھائے ہوئے چنگ چی اور پک اپ رکشہ جیسی خطرناک سواریاں سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں جو الٹتے ہوئے نہ کسی کو بتاتی ہیں نہ پوچھتی ہیں...
سڑکوں، پلوں اور موٹر وے کی اہمیت اپنی جگہ مگر خدا را ''حاجات ضروریہ‘‘ کو اتنا بھی غیر ضروری نہ سمجھا جائے کہ اس قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کسی سڑک پر یا بازار میں اپنی انا کو مجروح کر کے کسی غیر مرد سے پوچھ رہی ہوں کہ ''یہاں نزدیک کہیں رفع حاجت کے لئے جگہ ہے؟‘‘...

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں