گائوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا، چودھریوں کی دشمنی کی وجہ سے ہر شخص ڈرا ہوا تھا‘ کیونکہ ''بڑوں‘‘ کی لڑائی میں زیادہ تر ''چھوٹے‘‘ مارے جا رہے تھے اس لئے یہ''چھوٹے‘‘چاہتے تھے کہ لڑائی ختم ہو، گائوں میں سکون ہو، ''بڑوں‘‘ کی بلا خوف بڑی سیاستیں اور ''چھوٹوں‘‘ کی چھوٹی چھوٹی خوفزدہ سوچیں‘... انہی میں سے دو ''چھوٹے‘‘ گائوں کی کسی گلی میں سے گزر رہے تھے کہ ایک گھر کے اندر سے آواز آئی ''پہلے بازو کاٹو پھر گلا کاٹنا‘‘، یہ ڈائیلاگ کسی خوفناک گولی کی طرح ان کے کانوں میں گْھسا اور دماغ میں پہنچ کر پھٹ گیا، نتھنوں سے دُھواں نکل کر آنکھوں کے آگے پھیل گیا، پاؤں جہاں تھے وہیں جم گئے، گویا تھوڑی دیر کے لئے دونوں بھول گئے کہ وہ زندہ ہیں یا مْردہ، ڈائیلاگ کی تپش کم ہوئی تو سامنے دوبارہ لمبی گلی نظر آنے لگی۔ دونوں چھوٹوں نے بڑے انجن کی طاقت سے دوڑنا چاہا مگر پاؤں اپنی جگہ سے نہ ہلے ‘بالکل ویسے جیسے کھڑی گاڑی کو چوتھے گیئر میں ڈال کر دوڑانے کی کوشش کریں تو وہ آگے بڑھنے کے بجائے بند ہو جاتی ہے، دونوں قدرے سنبھل کر دوبارہ سٹارٹ ہوئے، گیئر چھوٹا کیا اور ایکسیلیٹر پورا دبا دیا۔ پولیس سٹیشن تک پہلے گیئر میں ہی پہنچے اس لئے انجن گرم ہو چْکا تھا، گیٹ پر تھوڑے ٹھنڈے ہو کر اندر گْھسے اور شور مچا دیا ''وہ پہلے بازو کاٹ رہے ہیں پھر گلا کاٹیں گے، وہ پہلے بازو کاٹ رہے ہیں پھر گلا کاٹیں گے‘‘... ارے کون وہ؟... وہ... وہ... پہلے بازو کاٹیں گے... پھر گلا... آؤ ہمارے ساتھ، پولیس انہیں لے کر جائے واردات پر پہنچی۔ مکان کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا، بڑے تھانے دار نے ''چھوٹوں‘‘ کا بتایا ہوا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا‘ اندر سے ایک ''چھوٹے‘‘ ہی نے دروازہ کھولا، پولیس اندر گْھسی، اندر''گارمنٹس فیکٹری‘‘تھی، کسی ''ماسٹر‘‘نے شاگرد سے کہا تھا ''پہلے بازو کاٹو‘پھر گلا کاٹنا‘‘اور یہی ٹیلر ماسٹر کا ڈائیلاگ گلی میں جاتے ہوئے دونوں ''چھوٹوں‘‘کے کانوں میں گولی بن کر لگا...
گلوبل ویلیج میں بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال ہے، لوگوں کو کچھ اور سنائی دیتا ہے اندر کی کہانی کچھ اور ہوتی ہے، لڑائی بڑوں میں ہے، مارے چھوٹے جارہے ہیں، کبھی بڑوں کے اپنے بنائے ہوئے طالبان چھوٹوں پر ڈال دئے جاتے ہیں ، کبھی ان بڑوں کی ہی پیدا کردہ داعش کو کسی چھوٹی سی جھونپڑی سے برآمد کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے، اور پھر یہ ''بڑے‘‘ان ڈراموں کو سچ ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسی چھوٹی موٹی کہانیاں اپنے ہاں بھی کھیل لیتے ہیں...!
وطن عزیز کو ایک عرصہ سے دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ہم نے خاصا جانی و مالی نْقصان اْٹھایا ہے۔ حتیٰ کہ ہماری حکومت اور سول فورسز اس دہشت گردی کے سامنے بے بس نظر آنا شروع ہو گئیں۔ آخر کار ہماری پاک فوج نے ان دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے آپریشن ''ضربِ عضب‘‘ شروع کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تھوڑے ہی عرصہ میں حیران کْن کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اب گلوبل ویلیج کے ''بڑے‘‘ہماری اس واضح کامیابی کو دھندلانے کے لئے مُختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں پاکستان میں داعش کی موجودگی ثابت کرنے کی بھونڈی کوششیں کی جا رہی ہیں، ہمارے اپنے درختوں پر بیٹھے ہوئے چند طوطے بھی جو کہ ولائتی چوری کھانے کے عادی ہیں ''بڑوں‘‘ کی اس آواز میں اپنی ٹیں ٹیں ملا رہے ہیں، یہاں حکمرانوں کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں‘ غلطی کی گنجائش نہیں جب کہ ہماری حکومت نے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ ڈالنے کے لئے پولیس کا ایک شعبہ تشکیل دے کر ایک غلطی تو کر ڈالی ہے کیونکہ ہم لوگ معمولی معاملات سے لے کر سنگین جرائم تک اپنی پولیس کو رشوت اور سفارش سے پاک نہیں کر سکے تو پھر دہشت گردی جیسے حساس مسئلے میں انہیں کرپشن سے کیسے روکیں گے ؟یہاں تو کیس جتنا سنگین ہوتا جائے اتنا ہی پولیس کا ریٹ بڑھ جاتا ہے ۔یہاں یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ ہمارے اس محکمے میں انتہائی ایمان دار لوگ بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کا تناسب دہشت گردی کے خاتمے جیسے اہم معاملے کے لئے ہر گز تسلی بخش نہیں ، اس لئے جہاں فوج کے جوانوں نے اپنے خون سے دھرتی پوچ کر دہشت گردی کے داغ مٹائے ہیں وہاں کئی پولیس والے مبینہ طور پر داعش سے رابطے کے الزام میں اکثر بے گْناہوں سے پیسے بٹور کر لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں ، جس سے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر عوام فوج کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے، کیونکہ عوام کی معلومات کے مْطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف پاک آرمی لڑ سکتی ہے اور لڑ رہی ہے اس لئے ہماری رائے میں اس آپریشن کو خالصتاً فوج کے ہاتھوں میں ہی رہنا چاہئے۔
اس رائے کے اظہار کا خیال تحصیل ڈسکہ کے چھوٹے سے گاوْں ''رنجائی‘‘ میں رہنے والے ایک کم سن ''حمزہ‘‘ کی کہانی سن کر آیا، جس نے اس سال نویں کلاس کا امتحان ہائی فسٹ ڈویژن میں پاس کیا، سال پہلے جب وہ آٹھویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا داعش سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘ مہینوں تقریباً سولہ مختلف اداروں کی تفتیش میں ہر پہلو سے کلیئر کیا گیا، واپس سکول جانا شروع ہوا، پریشان والدین سائے کی طرح سر پر رہنے لگے، جس کا نتیجہ نویں کلاس میں شاندار نمبروں کی صورت میں سامنے آیا اور اب دوبارہ اسی شک میں کئی ہفتوں سے پولیس کے ہاتھوں ''دھر‘‘ لیا گیا ہے۔ والدین دوبارہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ''متھے‘‘ لگنے والے ہر شخص سے اپنے لختِ جگر کے مْستقبل کا سوال کرتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ اگر بیٹا مْجرم ثابت ہو جائے تو اس کے ساتھ مجھے بھی گولی مار دی جائے۔ ماں کی ممتا منت کرتی ہے کہ سارا گاوْں میرے بچے کی بے گناہی کی گواہی دیتا ہے مگر کوئی سنتا ہی نہیں، بار کے صدر اور علاقے کے نو منتخب چیئرمین سمیت گاوْں کا ہر معزز پولیس کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہے لیکن پولیس کا یہی کہنا ہے کہ ''اندر قمیض کا نہیں کسی انسان کا گلا کاٹا جا رہا تھا‘‘...؟
حکومتِ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کا اظہار قابل ستائش ہے مگر ہمیں اپنوں سے بھی ایسے ہی اظہار کی ضرورت ہے، کہیں آپریشن ضربِ عضب سے لوگوں کے دلوں میں کھلے ہوئے امن کے پھول خدانخواستہ ہماری اس بوکھلاہٹ سے مْرجھا نہ جائیں...