ایک طرف...
''کل خوب دن گُزرا، صُبح سے شام تک ٹھنڈی ہوا چلتی رہی‘‘
''جی، نواز شریف نے بجلی پوری کر دی ہے‘‘
دوسری جانب...
''یار کل جہاز میں اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے بہت جھٹکے لگے‘‘
''میاں برادران نے ہر ٹھیکے میں سے کمیشن کھائی ہے کوئی بھی سڑک ٹھیک نہیں‘‘
ایسے ہی ایک کے بقول ...
''یار اس دفعہ روزے پھر بھرپور گرمی میں آ رہے ہیں‘‘
''جی اللہ مُعاف کر دے یہ دھرنے ہمیں لے دے گئے ہیں‘‘
اور پھر دوسرے کے مطابق ...
''یار میرا بڑا بیٹا گھر چھوڑ گیا ہے‘‘
''اور ووٹ دیں ن لیگ کو‘‘
بے ربط، بے تُکّی اور بے معنی گفتگو ہمیں کئی سال پہلے عوامی چوپالوں میں سنائی دینے لگی تھی، آہستہ آہستہ خواص نے بھی یہی طرزِِ تکلّم اپنا لیا، پھر، ''اوئے توئے‘‘ اور اب... ''گالی گلوچ‘‘... دیکھتے ہی دیکھتے یہ ''بکواسیات‘‘ ہماری ''سیاسیات‘‘ میں ایسی اہمیت اختیار کر گئیں کہ زیادہ تر اسی کو اپنانے والے ''دھڑلے دار‘‘ سیاستدان کہلانے لگے۔
اب عوام کی زبان سے نکلنے والے سوالات بِنا جواب ملے اس ''بکواسیات‘‘ میں کہیں لا پتہ ہو جاتے ہیں... کون اچھا ہے‘ کون بُرا؟... جو خوب شور مچائے، وہ اچھا، جو خاموش رہے وہ بُرا... سرکاری محکموں کو بھی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے اشتہار چھاپنے پڑتے ہیں، بعض اوقات اتنی لاگت ''کارکردگی‘‘ کی نہیں ہوتی جتنی بتلانے میں اُٹھ جاتی ہے... ایک طرف ایسی فضول خرچی کاہے کو اور دوسری طرف ایسی بے یقینی کیوں... تقریریں بے تُکّی اور سامعین لاپروا، جس سے نکتہ چینی اور بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے...
''حال حیران ہمیشہ رہندا مورکھ نکتے چین‘‘
''وچ ہنیرے دلاں فقیرا چانن کرے یقین‘‘
تول کر بولنے اور سُن کر سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہمارے پاس... وقت نہ ہونا ''خود غرضی‘‘ ہے، ہم خود غرض ہو چُکے ہیں ... ہر واقعے کی مُحرک، ہر حادثے کا سبب، ہر جُرم کی جِہت ... ''خود غرضی‘‘ ... خود غرض قوم کی ترقی ریت کا گھر ثابت ہوتی ہے، مضبوط ترقی کے لیے قومیں ''غرض‘‘ کو ''مملکت‘‘ کے ساتھ جوڑتی ہیں ... گھر کی دیواروں کو اُٹھا کر ملک کی سرحدوں پر لے جاتی ہیں ... پیشانی سے بہنے والے پسینے کو اپنے صحن نہیں‘ دھرتی کی مٹی میں ملاتی ہیں ... جب ملک کو گھر سمجھا جائے تو پھر صحن نہیں وطن سرسبز ہوتے ہیں اور جب وطن سرسبز ہو تو خزاں کا ڈر نہیں رہتا...!
بدقسمتی سے ہمارے ہاں خزاں کو بہار اور بہار کو خزاں کا رنگ دینے کے لیے اکثر ''رنگ ساز‘‘ میڈیا پر خون پسینہ ''خراب‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹیلی وژن پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے چہرے پر لعنت ڈالنے والے دراصل قوم کا چہرہ مجروح کر رہے ہوتے ہیں، تعمیری گفتگو کے بجائے ایک دوسرے کی کردار کُشی کرنے والے ملکی کردار پر ''خود کُش‘‘ حملہ کر رہے ہیں ... کئی بدکرداری کے ''نیشنل چیمپین‘‘ ، ''شیمپین‘‘ سے ٹُن ہو کر ڈنڈا اور صابن لیے پوری نیشن کو اپنی ''تر دامنی‘‘ کے نل تلے دھو رہے ہوتے ہیں ... اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ محض ''شور شرابی‘‘ ہے ہم ہر کام چھوڑ کر پورے انہماک کے ساتھ یہ ''دھلائی‘‘ دیکھ رہے ہوتے ہیں...
''خود غرضی‘‘ لے دے گئی ہے، کوئی خود سیاست کا رُستم بننا چاہتا ہے اور کوئی اپنی پارٹی کے سرخیل کو بچانے پر کمربستہ...
مرحوم رُستم زماں بھولو پہلوان پانج بھائی تھے اور سارے کے سارے پہلوان۔ اگر کوئی رُستم زماں کو چیلنج کرتا تو اسے سب سے چھوٹے بھائی کی راہ دکھائی جاتی۔ اگر اسے گراؤ گے تو سامنے اس سے بڑا کھڑا ہو گا، اگر اسے بھی چِت کر لیا تو پھر اس سے بڑے کے ساتھ پنجہ آزمانا پڑے گا، یعنی کسی بھی شاہ زور کی بھولو پہلوان تک براہ راست رسائی ناممکن ہوتی۔ موجودہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ''رُستم‘‘ بالکل اسی طریقے پر کاربند نظر آتے ہیں اور پوری قوم کو بھی اسی ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا رکھا ہے...
دنیا تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے، ہمارے سیاسی پہلوان ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر تُلے ہوئے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کے سیاستدان انٹرنیشنل دنگل لڑنے کے لیے دوسروں کے دروازے کھٹکھٹاتے پھر رہے ہیں...
اندرونی شور پر قابو پا کر ''بیرونی دستک‘‘ کو محسوس کرنا چاہیے کہ اب اسی میں حیات ہے۔
یوم پاکستان پر پریڈ گرائونڈ میں اس مرتبہ جہاں پوری قوم نے افواج پاکستان کی پریڈ کا روح پرور نظارہ لیا، وہیں پوری دُنیا نے پاکستان کے ازلی دُشمن کی ناپاک خواہش کا جنازہ بھی اٹھتے ہوئے دیکھا، اقوامِ عالم میں وطن عزیز کو تنہائی کی طرف دھکیلنے والے مودی کو منہ کی کھانا پڑی۔ اسے حکومت پاکستان کی دانشمندانہ خارجہ پالیسی کہیے یا افواج پاکستان کے بہترین روابط، کہ کل پریڈ کے میدان میں غیر ممالک یعنی چین اور سعودی عرب کے فوجی دستے شانہ بشانہ ہمارا یومِ پاکستان مُناتے ہوئے دیکھے گئے۔ اس پر منتظمین اور پوری قوم مُبارک باد کے مُستحق ہیں۔