حکومت طالبان مذاکرات وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔طالبان کی سیاسی شوریٰ نے حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی دوسری کمیٹی پر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اسی دوران وزیراعظم سے پاکستان علماء کونسل کے وفد نے اسلام آباد میں ملک کی موجودہ صورتحال اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے ایک تفصیلی ملاقات کی جس میں ان تمام امور پر گفتگو ہوئی جو اس وقت پاکستان اور اہل پاکستان کو درپیش ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ خواہش کہ پاکستان میں اب ایک قطرہ خون کا بھی نہ بہے اور پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے‘ ہر پاکستانی کے دل کی ترجمانی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کئی مراحل پر‘ جب مذاکرات کی بجائے آپریشن کی بات کی گئی تو وزیر اعظم نے ذاتی طور پر اس کو قبول نہ کیا اور امن کے عمل کو تقویت دینے کے لیے ہر آپشن استعمال کرنے کی کوشش کی۔ طالبان مذاکرات کے ابتدائی مرحلے میں طالبان کی سیاسی شوریٰ کی طرف سے یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ بعض گروہ امن مذاکرات کے مخالف ہیں لہٰذا ان گروہوں سے بات تو ضرور کریں گے لیکن ان کی فی الحال ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان کے پاکستان سے متصل علاقوں میں گزشتہ دو سالوں کے دوران جو کیمپ قائم کیے گئے ہیں ان میں اکثریت ان تکفیری گروہوں کی ہے جو نہ طالبان کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کو۔ ان گروہوں سے متصل پاکستان میں بعض شدت پسند گروہ کسی بھی صورت مذاکراتی عمل کی کامیابی نہیں چاہتے۔ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام سے لے کر موجودہ مذاکرات تک کبھی بھی قومی سطح پر مذاکراتی عمل شروع نہیں کیا گیا اور نہ ہی طالبان کی طرف سے اس طرح جنگ بندی کا اور کارروائیاں نہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اب تک جتنی مرتبہ بھی مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا‘ وہاں مقامی سطح پر معاہدے ہوئے اور مقامی سطح پر ہی جنگ بندی ہوئی۔موجودہ مذاکراتی عمل میں وزیراعظم اور ان کی کمیٹی کے اراکین اور مولانا سمیع الحق کی ذاتی کوششوں سے ملکی سطح پر جنگ بندی کا اعلان اور مذاکراتی عمل کا آگے بڑھنا درست سمت کی طرف نشاندہی کر رہا ہے ۔راقم الحروف ذاتی طور پر جانتا ہے کہ وزیرستان میں بیٹھے ہوئے اہم کمانڈر مذاکراتی عمل کو ہر صورت مثبت سمت میں لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے کے لیے کیا کیا سازشیں ہو سکتی ہیں؟ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان امور کی طرف توجہ کی جائے جن امور سے امن کی منزل قریب آئے اور مذاکراتی عمل کامیابی سے ہمکنار ہو۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ مذاکرات پاکستان کے پرچم کے نیچے اور آئین پاکستان کے تحت ہوں گے ۔ یہاں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ آئین پاکستان کی بنیادی شق ہی یہ واضح کر دیتی ہے کہ آئین پاکستان قرآن و سنت کے تابع ہے اور پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ طالبان نے جو اپنی کمیٹی قائم کی وہ بھی ان افراد پر مشتمل ہے جو آئین پاکستان کے تحت اپنی سیاسی اور دینی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ بحث تو ختم ہو گئی کہ طالبان آئین پاکستان کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے۔ اب جس مرحلے کی طرف مذاکراتی عمل کو آگے بڑھنا ہے‘ اس کے لیے قومی یکجہتی اور تمام قوتوں کا ایک پلیٹ فارم پر ہونا بہت ضروری ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے پاکستان کے تمام ادارے ایک ہی سوچ رکھتے
ہیں کہ جو مذاکرات کرنا چاہتا ہے اس سے مذاکرات کیے جائیں گے اور جو بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں‘ ان کو اُن کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ اس پالیسی پر پاکستان کے تمام ادارے ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اور اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ ہماری فوج ہر طرح کے آپریشن اور جنگ کی صلاحیت رکھتی لیکن وہ یہ واضح کر چکی ہے کہ سیاسی قیادت جو بھی فیصلہ کر ے گی‘ اس پر عمل کیا جائے گا۔ لہٰذا اب اس مرحلے میں (جس میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کیا مذاکراتی عمل کو آگے بڑھنا ہے یا یہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا) سب سے اہم معاملہ طالبان اور حکومت کے درمیان اعتماد کا ہے اور اگر دونوں طرف اعتماد کی بحالی ہو جاتی ہے تو پھر بہت سارے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو گی اور اگر اعتماد قائم نہیں ہوتا تو پھر آخری صورت آپریشن کی ہی ہو گی جس میں ملک کی ساری مذہبی اور سیاسی قیادت کو یکجا ہونا ہو گا اور جس سے بچنے کے لیے وزیراعظم پاکستان اور ملک کی دیگر قوتیں کوشاں ہیں کہ کسی طرح انسانیت کا خون نہ بہے۔ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں سب سے اہم بات ان غیر جنگی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ہے جو کسی بھی طرح کسی جنگی سر گرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ طالبان کا
دعویٰ ہے کہ ان کے بچے ، بوڑھے اور عورتیں حکومتی اداروں کی قید میں ہیں۔ جب کہ حکومتی ادارے اس سے انکار کرتے ہیں اور خود وزیر اعظم پاکستان نے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کے حوالے سے حکم جاری کیا ہے کہ اگر کسی بھی ادارے کے پاس ایسے افراد موجود ہیں تو ان کو رہا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے اور یہی وہ سوچ اور فکر ہے جس سے مذاکراتی عمل کو تقویت مل رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر دنیا طالبان سے بھی یہ امید کر رہی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے پہلے مرحلے میں غیر جنگی قیدیوں اور اغوا شدگان کو رہا کر دیں گے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے کچھ پیش رفت ہوتی ہے تو طالبان کی طرف سے پہلے مرحلے میں پروفیسر ڈاکٹر اجمل کی رہائی ہو جائے گی اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا۔
طالبان نے حکومت کی نئی کمیٹی کے قیام کے بعد مولانا سمیع الحق کی سر براہی میں قائم کمیٹی پر ایک بار پھر نہ صرف اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ یہاں تک بھی کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے دوران مولانا سمیع الحق کی کمیٹی کو بھی بیٹھنا ہو گا جو کہ ایک بہتر سوچ ہے اور امید یہ ہے کہ جہاں پر کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی‘ اس کو دور کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے جیسا کہ انہوں نے یکطرفہ جنگ بندی کے لیے کیا ہے۔