نانا پاٹیکر کا مشہورترین ڈائیلاگ ہے ''ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنادیتا ہے ‘‘۔ بالکل اسی طرح ایک '' گلو بٹ ‘‘ اچھے خاصے افسر کو او ایس ڈی بنادیتا ہے ۔ گلو بٹ سے منگل کی شام پورا پاکستان واقف ہوگیا ۔ ایک بپھرے ہوے سانڈ کی طرح ماڈل ٹاؤن کے شب خون کے بعد دن دیہاڑے گاڑیوں کے خلاف سلطان راہی بنا ہوا تھا۔ پھر پتہ چلا کہ گلو بٹ پولیس کا پالاہوا کارندہ ہے ۔ ماڈل ٹاؤن کے پولیس افسر طارق عزیز کا کارندہ جو پولیس کے کہنے پر ناجائز کام کیا کرتا ہے ۔ حیرت ہے کہ پولیس کو بھی غلط کام کرنے لیے بندے درکار ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں کی گاڑیاں ٹوٹیں ان سے معذرت کہ میں نے گلو بٹ جیسوں کے لیے '' بندے ‘‘ کا صیغہ استعمال کرلیا ۔
ماڈل ٹاؤن آپریشن پولیس نے جس انداز میں انجام دیا ،اس سے سب کے سر شرم سے جھک گئے ۔ ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ میں قابض بھارتی فوج کو نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھاتے دیکھ رہا ہوں ۔ ظلم و بربریت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا ۔پولیس بیریئرختم کرنے کی بجائے منہاج القرآن کے مرکز کو فتح کررہی تھی ۔ بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے چادریں نوچی جارہی تھیں ۔ انہیں گھسیٹا جارہا تھا ۔ باریش بزرگوں کی ٹانگیں توڑی جارہی تھیں ۔ نوجوانوں پر تھرڈ ڈگری سر عام اپلائی کی جارہی تھی ۔ لوگ ڈنڈا ڈولی کرکے گاڑیوں میں پھینکے جارہے تھے ۔
پولیس لاٹھی چارج میں بھی صرف سر پھاڑنے میں دلچسپی لے رہی تھی ۔ خون میں لت پت لوگ سڑک پر پڑے ہوئے تھے اور ان نیم بے ہوش افراد کو بھی شفیق گجر کے جعلی مقابلہ ایکسپرٹس لاٹھیوں سے پیٹ رہے تھے ۔ آنسو گیس کے شیل اتنی تعداد میں چلے کہ گھروں میں موجود افراد کا دم گھٹنے لگا ۔ گولی پہلے اندر سے چلی یا باہر سے ،اس کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن کیمرے کی آنکھ جو دکھارہی تھی وہ ٹی وی دیکھنے والوں کو پولیس کے لیے ایسی زبان کے استعمال پر اکسا رہی تھی جسے ضابطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ بے گناہوں کے خون سے پولیس نے ہاتھ رنگے اور درجنوں افراد کو اسپتال پہنچادیا ۔ کئی گھرانے بلکنے کو چھوڑدیے ۔ کراچی میں ایئر پورٹ پر حملے کے بعد وطن کے لیے کٹ مرنے والوں کے لواحقین کی خاطر اعلان یاد کیجیے ، اے ایس ایف کے جوانوں کے لیے دس دس لاکھ روپے اور رینجرز کے جوانوں کے لیے بیس بیس لاکھ روپے کا اعلان ہوا تھا مگر یہاں جب حکمرانوں کو اپنی کرسی ہلتی نظر آئی تو اعلان تیس تیس لاکھ روپے کا ہوا ۔ یہ اعلان اس بات کا اعلان ہے کہ خطرہ کس
قدر محسوس کیا گیا ۔ جب یہ پاگل پن کئی زندگیوں کو اپنا رزق بنانے کے بعد تھما تو آگ ، راکھ ، دھواں اور ملبہ بکھرا نظر آرہا تھا ۔ لہو لہو چہرے اور زخموں سے چور بدن بتارہے تھے کہ ہم نے اپنی صورت کو کتنا بگاڑ لیا ۔ ہمارا تماشہ ہماری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ کئی گھر ماتم کدوں میں بدل گئے ۔معصوم بچوں کے سوال لاجواب کررہے تھے اور بے شرمی اپنے وجود کے جواز گھڑ رہی تھی ۔برہنگی اپنا سراپا لیے فخریہ کھڑی تھی ۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں ؟ ہمارے حکمران بھی کیا پیدل ہیں ؟ اپنے چہرے پر کالک اس وقت ملی ہے کہ جب محض ایک دن پہلے ہم تمتماتے رخسار اور آنکھوں میں عزم کی چمک لیے روشن پیشانی کے ساتھ سب کے سامنے تھے ۔ ہم نے دنیا کو بتادیا تھا کہ ہم مہذب لوگ ہیں ۔ ہم ایسی ریاست نہیں کہ چند لوگ کے سامنے کروڑوں کے سر خم ہونے دیں۔ ہم حساب لینے جارہے ہیں ان سے کہ جنہوں نے پاکستان سے دین کے نام پر بھتہ مانگا ہے ۔ ہم لڑیں گے ۔ آگ اور خون کے دریا پار کریں گے اور اب چاہے آسمان گر پڑے ہمارے قدموں میں لغزش نہیں آئے گی ۔ کیا خوبصورت تصویر تھی ہماری کہ جس کی ترتیب کراچی سے خیبر تک اور کینیڈا سے برطانیہ تک ہم آہنگی سے بھرپور تھی ۔ہم نے اپنی افواج سے کہا تھا کہ ـ '' جاؤ اب ہم تمہاری وفاؤں کے حصار میں اور تم ہماری دعاؤں کے حصار میں ہو۔میدانوں میں لڑنے والوں کو شہروں میں رہنے والوں کا تعاون چاہیے ۔ پیر کی شام تک یہ سب کچھ بہت حسین نظر آرہا تھا ۔نگاہوں میں یقین بن کر چمک رہا تھا ۔ جمہوریت سے جمہور پہلی بار خوش بھی نظر آرہی تھی اور پہلی ہی بار قربانی دینے کو تیار بھی ۔
مگر اس کے بعد رات کی تاریکی میں اسلام آباد کی لال مسجد کی کہانی دہرائی گئی ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ تمام قتل جسم کے اوپری حصوں پر گولیاں مار کر کیے گئے ۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر روکنا مقصود ہوتاتو گولیاں پیروں کی جانب چلائی جاتیں ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ وہ انصاف دلائیں گے لیکن مکمل احترام کے ساتھ عرض ہے کہ مظلومین نے نامزد ملزم آپ ہی کو ٹھہرایا ہے ۔ آپ اس واقعے سے اب بیانات اور اعلانات کی سیاست دور رکھیں تو ہی بہتر ہے ۔اس معاملے کو اب انتہائی احتیاط سے لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔البتہ جس چیز پر میاں صاحبان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے یہ خبر کہ یہ سب کچھ ایک طاقتور صوبائی وزیر کے کہنے پر ہوا۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وزیر کو پولیس کے بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر اشارہ سمجھ دار کو کافی ہوا کرتا ہے ۔اس کا خیال تھا کہ اس کام سے چھوٹے میاں صاحب بڑے خوش ہوں گے ۔ لیکن اس گلو بٹ کے حملے نے اپنا ہی چہرہ لہولہان کردیا ہے ۔ گلوبٹ نے جمہوریت کی گاڑی کے شیشے توڑے ہیں اور ان کی کرچیاں لگنے سے پاکستان کی ہر آنکھ خون کے آنسو رورہی ہے ۔میاں برادران کو چاہیے کہ ایسے گلو بٹوں سے اپنی جمہوری حکومت اور ملک کو بچائیں ورنہ کیا پتہ کہ کب کسی گلوبٹ کے کرتوت جمہوریت کو او ایس ڈی بنادیں ۔